✍️ زیرِ لب – قسط سوم تحریر؛غلام مرتضی
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی آئینے میں خود کو دیکھتا ہے…اور پہچان نہیں پاتا۔نہ چہرہ اپنا لگتا ہے،نہ آنکھوں کی روشنی وہی ہوتی ہے،اور نہ ہی مسکراہٹ میں وہ خلوص رہتا ہے۔بس ایک خالی پن ہوتا ہے ۔جیسے کوئی اندر سے رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہو،مگر دنیا کی نظروں میں ابھی تک "ٹھیک” ہے۔یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ سے بچھڑ چکا ہوتا ہے۔
ہم کیا تھے، اور کیا بن گئے؟
ہم سب نے زندگی میں وہ لمحے جھیلے ہیں جہاں ہم نے خود کو بدلتے دیکھا۔
کبھی مجبوری میں، کبھی محبت میں،
کبھی عزت بچانے کے لیے،
اور کبھی بس جینے کے لیے۔
شروع میں ہر تبدیلی چھوٹی لگتی ہے۔
بس ایک بات چپ کر جانا،
ایک خواب ترک کر دینا،
ایک خواہش مار دینا۔
مگر وقت کے ساتھ یہ سب قطرہ قطرہ اندر اکٹھا ہوتا جاتا ہے
اور ایک دن، جب ہم آئینے میں دیکھتے ہیں،
تو صرف چہرہ باقی ہوتا ہے،
"میں” کہیں گم ہو چکا ہوتا ہے۔
زندگی کی دوڑ میں ہم کہاں رہ گئے؟
ہم روز صبح اٹھتے ہیں،
ایک ہی روٹین، ایک ہی راستہ، ایک ہی چہرے۔
لیکن کیا ہم کبھی رُک کر خود سے پوچھتے ہیں کہ:
"یہ سب میں کیوں کر رہا ہوں؟”
"کیا یہی زندگی تھی جس کا خواب دیکھا تھا؟”
ہم سیکھ گئے ہیں جینا
لیکن محسوس کرنا بھول گئے ہیں۔
ہم بولتے ہیں، لیکن دل سے نہیں۔
ہم ہنستے ہیں، لیکن اندر خالی ہوتے ہیں۔
ہم ملتے ہیں، لیکن جڑتے نہیں۔
زندگی گزارنے کا فن تو سیکھا،
مگر خود کو ساتھ لے جانا بھول گئے۔
دوسروں کے لیے جیتے جیتے، خود کو کھو دینا
ہم نے دوسروں کے لیے اتنا کچھ کیا —
کہ خود کے لیے وقت، خواہش، ہمدردی،
سب ختم ہو گئے۔
ماں باپ کے لیے،
رشتوں کے لیے،
معاشرے کے لیے،
ہر فریم میں خود کو فٹ کیا
بس خود کے اندر جھانکنا چھوڑ دیا۔
ہمیں سکھایا گیا کہ دوسروں کو خوش رکھنا اصل کامیابی ہے۔
مگر یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ اگر خود اندر سے خالی ہو گئے،
تو کسی کو کیا دے پائیں گے؟
جب سوالوں کے جواب ختم ہو جائیں
ایک وقت ایسا آتا ہے جب سوال وہی رہتے ہیں،
مگر جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔
-
"کیسا لگ رہا ہے؟”
-
"کیا خوش ہو؟”
-
"کیا واقعی یہی چاہتے تھے؟”
ایسے سوالات اب بےمعنی لگتے ہیں۔
نہ کسی کو سننے کا وقت ہے،
نہ ہمیں کہنے کا حوصلہ۔
دل کہتا ہے چیخ کر سب کچھ کہہ دوں،
مگر زبان خاموش رہتی ہے۔
کیونکہ اب یقین ہی نہیں رہا کہ کوئی سنے گا۔
"میں” کو دوبارہ پانا — ایک سفر
خود سے دوبارہ ملنا آسان نہیں ہوتا۔
مگر ناممکن بھی نہیں۔
اس سفر کی شروعات ہوتی ہے سچ بولنے سے
کم از کم خود سے تو سچ کہیں:
-
کہ ہم تھک چکے ہیں
-
کہ ہمیں کچھ لمحے صرف اپنے لیے چاہییں
-
کہ ہمیں مسکرانے سے زیادہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں "میں” دوبارہ سانس لیتا ہے۔
پھر آہستہ آہستہ ہم واپس پلٹنے لگتے ہیں
اپنی پرانی خوشبوؤں کی طرف،
اپنی بےلوث مسکراہٹ کی طرف،
اپنی وہ ذات جسے ہم نے دنیا کے شور میں کھو دیا تھا۔
کبھی کبھی، خود کو معاف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے
ہم خود سے بہت سختی کرتے ہیں۔
اپنی ہر ناکامی، ہر غلطی، ہر کمزوری کو دل پر سجا لیتے ہیں۔
لیکن کیا ہم نے کبھی خود کو معاف کیا؟
کیا ہم نے کبھی کہا:
"کوئی بات نہیں، انسان ہو، غلطی ہو گئی۔”
خود سے محبت کرنا، خود کو معاف کرنا
یہ کمزوری نہیں، یہ وہ پہلا قدم ہے جس سے "میں” واپس آتا ہے۔
زندگی صرف گزارنے کے لیے نہیں ہوتی
اگر زندگی صرف دن رات کے گزرنے کا نام ہے،
تو ہم مشینیں بن گئے۔
زندگی تو وہ پل ہے جو آپ کے اندر روشنی کرے۔
وہ لمحہ جو دل کو دھڑکن دے۔
وہ احساس جو لفظوں سے نہیں، روح سے محسوس ہو۔
اگر ہم وہ سب محسوس کرنا چھوڑ دیں،
تو جینا صرف موجود رہنے کا دوسرا نام بن جاتا ہے۔
زیرِ لب کی صدا: خود کو تلاش کرو
"زیرِ لب” آج یہ صدا دے رہا ہے:
خود کو تلاش کرو۔
ان باتوں کو لکھو جو تمہیں چھو گئی تھیں۔
ان خوابوں کو یاد کرو جنہیں تم نے "حقیقت” کے نام پر دفن کر دیا۔
ان لوگوں کو یاد کرو جو تمہیں تم بننے دیتے تھے —
اور خود کو وہ اجازت دو…
کہ تم پھر سے "میں” بن سکو۔
"زیرِ لب” کی یہ قسط ان تمام دلوں کے نام
جو خود سے لڑتے لڑتے، خود سے بچھڑ چکے ہیں۔
یاد رکھو،
خود کو کھو دینا ایک حادثہ ہوتا ہے —
مگر خود کو پانا ایک فیصلہ۔
اور جب تم وہ فیصلہ کرو گے،
تو یہ دنیا بدل جائے نہ بدلے،
تم ضرور بدل جاؤ گے۔
اور تب…
تمہاری ہر مسکراہٹ، ہر آنکھ، ہر خاموشی —
پھر سے "تم” بن جائے گی۔
