برازیلیا — برازیل کی وفاقی پولیس نے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے غلط استعمال سے جُڑی ایک غیر معمولی اور تشویشناک کارروائی کا پردہ فاش کرتے ہوئے ایسے منظم گروہ کو گرفتار کر لیا ہے جو "معجزاتی دعاؤں” کے نام پر سادہ لوح عوام کو دھوکہ دے رہا تھا۔ اس گروہ نے نہ صرف مذہبی جذبات کو تجارتی بنیادوں پر استعمال کیا بلکہ اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے تخلیق شدہ مواد کو "الہامی کلمات” کا درجہ دے کر اسے فروخت بھی کیا۔
اے آئی سے جعلی روحانیت کی تخلیق
تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ اس گروہ نے جدید اے آئی ٹولز کی مدد سے ایسے متن تخلیق کیے جنہیں ظاہری طور پر قدیم مذہبی دعاؤں جیسا رنگ دیا گیا تھا۔ یہ دعائیں نہ صرف زبان و بیان میں روایتی تھیں بلکہ انداز بھی اس طرح ترتیب دیا گیا کہ وہ قرونِ وسطیٰ کے روحانی متون سے مشابہ دکھائی دیں۔
بیماریوں اور مالی مشکلات کا جھوٹا حل
ملزمان عوام کو یہ باور کراتے تھے کہ یہ "دعائیں” روحانی دنیا سے الہام کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں، اور ان کے ذریعے بیماریوں کا علاج، مالی مشکلات کا خاتمہ اور روحانی پریشانیوں سے نجات ممکن ہے۔ متاثرین کو یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ ان دعاؤں کی روحانی تصدیق "عالمی مذہبی اداروں” سے ہو چکی ہے۔
جعلی تصدیقی سرٹیفکیٹس کا انکشاف
سب سے سنسنی خیز انکشاف یہ ہوا کہ گروہ کے سرغنہ نے ان جعلی دعاؤں کو معتبر اور مستند ثابت کرنے کے لیے خود ساختہ سرٹیفکیٹس بھی تیار کر رکھے تھے۔ ان سرٹیفکیٹس پر جعلی دستخط، فرضی اداروں کے لوگو، اور پرنٹڈ مہر استعمال کی گئیں تاکہ عام آدمی کو شک نہ ہو۔
سوشل میڈیا پر سرگرم دھوکہ دہی کا نیٹ ورک
یہ "معجزاتی دعائیں” مختلف آن لائن پلیٹ فارمز، سوشل میڈیا اکاؤنٹس، اور مخصوص ویب سائٹس کے ذریعے فروخت کی جا رہی تھیں۔ گروہ نے ان دعاؤں کے ساتھ متاثر کن کہانیاں اور جعلی ٹ estimonials بھی شامل کیے تاکہ صارفین جذباتی طور پر مجبور ہو کر انہیں خریدیں۔ کچھ افراد نے ان دعاؤں کی فی کاپی کے عوض ہزاروں ریئل (برازیلین کرنسی) ادا کیے۔
بین الاقوامی روابط کی تحقیقات جاری
پولیس کے مطابق یہ گروہ نہ صرف برازیل میں سرگرم تھا بلکہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے کچھ نیٹ ورکس بیرونِ ملک بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ حکام اب اس بات کی کھوج لگا رہے ہیں کہ آیا یہ گروہ دیگر ممالک میں بھی اسی نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث تھا یا نہیں۔
عوامی عقائد پر ٹیکنالوجی کا حملہ
یہ واقعہ صرف ایک کرمنل کیس نہیں بلکہ ایک سنگین اخلاقی بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت، جو دنیا بھر میں مثبت تبدیلیوں کا ذریعہ بن رہی ہے، یہاں ایک نہایت حساس میدان — مذہب — کو استحصال کا ذریعہ بنانے کے لیے استعمال کی گئی۔
اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جہاں ٹیکنالوجی عوامی فلاح کے لیے بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے، وہیں اس کے غلط استعمال سے نہ صرف مالی نقصان ہو سکتا ہے بلکہ سماجی، مذہبی اور اخلاقی اقدار بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اور عقیدے کے نام پر دھوکہ دہی کرنا نہ صرف قانونی جرم ہے بلکہ اخلاقی پستی کی انتہا بھی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے جرائم کے خلاف سخت کارروائی کریں اور عوام کو بھی ٹیکنالوجی سے متعلق شعور فراہم کیا جائے تاکہ وہ اس قسم کی جعلسازی کا شکار نہ ہوں۔
یہ واقعہ ٹیکنالوجی کی نگرانی، عوامی آگاہی، اور اخلاقی حدود کی ازسرِ نو تعریف کی ایک اہم مثال بن کر سامنے آیا ہے — ایک ایسا لمحہ جہاں مصنوعی ذہانت کی طاقت کو قابو میں رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔
