امریکا میں زرعی شعبے کو ایک ممکنہ نئے خطرے کا سامنا ہے، جہاں حال ہی میں ایک غیر معروف کیڑے لیف ہاپّر (Leafhopper) کی نئی قسم کی شناخت ہوئی ہے۔ اس کیڑے کا سائنسی نام Osbornellus sallus ہے، جسے پہلی بار امریکی سرزمین پر دیکھا گیا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق یہ دریافت مستقبل قریب میں مقامی فصلوں، پودوں اور زرعی معیشت کے لیے چیلنج بن سکتی ہے، اگر بروقت اور مؤثر اقدامات نہ اٹھائے گئے۔
پہلی دریافت کہاں ہوئی؟
یہ انکشاف امریکی ریاست ایریزونا کے سرحدی علاقے پورٹ آف سان لوئس (Port of San Luis) پر اُس وقت ہوا جب کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (CBP) کے افسران نے میکسیکو سے درآمد کی جانے والی "ریڈیچیو” نامی سبزی کی شپمنٹ کا معمول کے مطابق معائنہ کیا۔ تفصیلی جانچ کے دوران اہلکاروں نے اس کیڑے کی موجودگی کو نوٹ کیا، جو پہلے کبھی امریکا میں ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا۔
کیڑا کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟
Osbornellus sallus قسم کے لیف ہاپر کیڑے اپنی مخصوص خوراکی عادات کی وجہ سے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ کیڑے مختلف اقسام کے پودوں، گھاس، جھاڑیوں اور درختوں کے قیمتی رس یا عرق کو چوستے ہیں، جو کہ پودوں کی افزائش اور صحت کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس عمل سے پودے کمزور ہو جاتے ہیں، ان کی نشوونما رک سکتی ہے اور بالآخر وہ مر بھی سکتے ہیں۔
لیف ہاپر کی کئی اقسام پودوں کی بیماریوں اور وائرسز کی منتقلی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس خاص قسم کی موجودگی اس بات کا اشارہ ہو سکتی ہے کہ اگر فوری طور پر اس کی نگرانی نہ کی گئی تو یہ پورے خطے کی زرعی پیداوار اور نباتاتی تنوع کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
زرعی ماہرین اور حکام کی تشویش
زرعی ماہرین نے اس صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ کیڑا قابو سے باہر ہو گیا تو یہ نہ صرف مقامی فصلوں بلکہ دیگر قدرتی نباتات اور ماحولیاتی توازن کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ خطرہ صرف ایک ریاست تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ دیگر علاقوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔
کسانوں اور عوام کے لیے رہنما ہدایات
ماہرین نے کسانوں، باغبانوں اور دیگر زرعی شعبے سے وابستہ افراد کو محتاط رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ اگر انہیں اپنے کھیتوں یا باغات میں کسی اجنبی کیڑے، پتے کے نقصان یا غیر معمولی علامات کا مشاہدہ ہو، تو فوراً مقامی زرعی محکمے یا وفاقی ادارے سے رجوع کریں۔ بروقت اطلاع نہ صرف فصل کو بچا سکتی ہے بلکہ ممکنہ پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، عام شہریوں کو بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ بیرونِ ملک سے منگوائی گئی ترکاری یا نباتاتی اجناس کی خریداری کے وقت پیکجنگ پر موجود سرٹیفکیٹ، قرنطینہ لیبلز یا اجازت ناموں کا بغور جائزہ لیں۔ غیر مصدقہ زرعی اجناس کی درآمد مستقبل میں ایسے ہی مزید خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔
اداروں کی ذمہ داری اور آئندہ کا لائحہ عمل
ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی اور وفاقی زرعی محکموں کو باہمی اشتراک سے اس خطرے کا جامع جائزہ لینا چاہیے۔ صرف ایک شعبہ یا ادارہ تنہا اس قسم کے چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتا۔ اس کے لیے مربوط حکمتِ عملی، جدید تحقیق، جدید انسداد اقدامات اور بھرپور عوامی آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔
ان اداروں کو چاہیے کہ وہ ملک کے دیگر بندرگاہوں اور زمینی سرحدی مقامات پر نگرانی کو مزید سخت کریں تاکہ اس کیڑے کے کسی ممکنہ پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، بیرون ملک سے آنے والی زرعی اشیاء کی درآمدات پر سخت قوانین لاگو کیے جائیں اور نگرانی کے معیار کو اپ گریڈ کیا جائے۔
امریکا میں لیف ہاپر کی نئی قسم Osbornellus sallus کی دریافت ایک سنجیدہ تنبیہ ہے کہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی زرعی تجارت کے ساتھ ساتھ زرعی بایو سیکیورٹی (Agricultural Biosecurity) کی اہمیت بھی دوگنی ہو چکی ہے۔ یہ محض ایک انفرادی واقعہ نہیں بلکہ عالمی زرعی نظام میں جڑے ہوئے ممالک کے لیے ایک سبق ہے کہ کس طرح ایک چھوٹا سا کیڑا ایک بڑے ماحولیاتی اور اقتصادی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
اگرچہ فی الوقت یہ کیڑا صرف ایک مخصوص ترکاری کی شپمنٹ میں پایا گیا ہے، لیکن اس کی موجودگی نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا یہ کیڑا پہلے سے موجود تھا؟ کیا یہ دیگر ریاستوں تک پہنچ چکا ہے؟ اور کیا ہمارے موجودہ حفاظتی اقدامات ایسے حیاتیاتی خطرات کے مقابلے کے لیے کافی ہیں؟
ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے اور ان پر عملدرآمد کرنے کے لیے حکومتی سطح پر تیز اور پائیدار ردعمل کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر، یہ چھوٹا سا کیڑا بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکا جیسے ملک میں جہاں زرعی معیشت اہم ستونوں میں شامل ہے، ایسے کیڑوں کی موجودگی کو معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔ فیصلہ کن اقدامات، کسانوں کی شمولیت، اور عوامی آگاہی ہی اس ناپسندیدہ مہمان کو ملک کے نباتاتی نظام سے دور رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
