Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

تاریخ میں پہلی بار آئس لینڈ میں مچھروں کی موجودگی کی تصدیق، سائنسدان حیران

اب وہاں گرم پانیوں کی مچھلیاں بھی دیکھی جا رہی ہیں، جو کہ ماضی میں اس خطے میں ناممکن سمجھا جاتا تھا
"Mosquitoes discovered in Iceland due to global warming"

دنیا کے ان چند علاقوں میں جہاں اب تک مچھروں کو کبھی نہیں دیکھا گیا تھا، ان میں سے ایک یورپی ملک آئس لینڈ بھی شامل تھا  مگر اب تاریخ بدل گئی ہے۔
نیچرل سائنس انسٹیٹیوٹ آف آئس لینڈ کے ماہر میتھائس الفروسن نے پہلی بار ملک میں مچھروں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی شناخت آئس لینڈ کے شمالی علاقے Kiðafell میں کی گئی، جہاں مچھروں کی تین مختلف اقسام کو دیکھا گیا ہے۔

یہ دریافت آئس لینڈ کی تاریخ میں ایک ماحولیاتی سنگِ میل تصور کی جا رہی ہے کیونکہ اس سے قبل یہ خطہ زمین کے ان دو علاقوں میں شمار ہوتا تھا جہاں مچھر کبھی پائے ہی نہیں گئے — ان میں دوسرا براعظم انٹارکٹیکا ہے۔

عالمی حدت نے ماحول کو بدل دیا

ماہرین کے مطابق آئس لینڈ میں مچھروں کی دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ سرد ترین خطوں کے موسمی نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ آئس لینڈ میں درجہ حرارت میں دیگر شمالی ممالک کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور اب وہاں گرم پانیوں کی مچھلیاں بھی دیکھی جا رہی ہیں، جو کہ ماضی میں اس خطے میں ناممکن سمجھا جاتا تھا۔

ماہرین نے کچھ عرصہ قبل پیشگوئی کی تھی کہ اگر درجہ حرارت میں یہی رفتار برقرار رہی، تو مچھر جلد ہی آئس لینڈ جیسے ممالک میں بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔ اب ان کی پیشگوئی حقیقت بن چکی ہے۔

مچھروں کی اقسام اور ان کا ماخذ

ماہر میتھائس الفروسن کے مطابق آئس لینڈ میں دریافت ہونے والے مچھر سرد علاقوں میں پائے جانے والی اقسام سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے خول و جسمانی ساخت کے باعث ٹھنڈے موسم میں بقا کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاہم، سائنسدان اب تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ یہ مچھر آئس لینڈ تک کیسے پہنچے؟
تحقیقی مفروضوں کے مطابق یہ امکان ہے کہ یہ کیڑے بحری جہازوں یا کارگو کنٹینرز کے ذریعے آئس لینڈ پہنچے ہوں، کیونکہ ملک کی بندرگاہوں پر عالمی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

عالمی حدت سے مچھروں کی نئی اقسام کا پھیلاؤ

موسمیاتی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ جیسے جیسے کرۂ ارض گرم ہوتا جا رہا ہے، مچھروں کی مزید اقسام دنیا کے مختلف خطوں میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
حالیہ برسوں میں برطانیہ میں بھی مصر میں پائے جانے والے مچھروں کے انڈے دریافت ہوئے، جو ڈینگی، زیکا وائرس اور ملیریا جیسی بیماریوں کو پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ انکشاف اس بات کی واضح علامت ہے کہ مچھر اب صرف گرم اور مرطوب خطوں کے رہائشی نہیں رہے  بلکہ وہ اب دنیا کے ٹھنڈے علاقوں میں بھی زندہ رہنے کے قابل بنتے جا رہے ہیں۔

ماہرین کی تشویش اور آئندہ خطرات

آئس لینڈ میں مچھروں کی موجودگی سے ماہرین ماحولیات اور صحت عامہ کے ماہرین سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ ان کے مطابق، اگر یہ کیڑے مقامی ماحول میں مستقل طور پر ڈھل گئے، تو مستقبل میں آئس لینڈ میں بھی انفیکشنز یا وائرل بیماریاں سامنے آ سکتی ہیں جن کا وہاں پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔

میتھائس الفروسن کا کہنا ہے کہ آئس لینڈ کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے سے نہ صرف مچھر بلکہ دیگر غیر مقامی جانداروں کے لیے بھی ماحول سازگار بنتا جا رہا ہے — جو ماحولیاتی توازن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

آئس لینڈ میں مچھروں کی دریافت ایک ماحولیاتی و حیاتیاتی انتباہ ہے جسے دنیا کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے۔
یہ واقعہ صرف ایک ملک میں نئے کیڑوں کی آمد نہیں، بلکہ زمین کے موسمی نظام میں بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

عالمی حدت (Global Warming) اب صرف درجہ حرارت کے بڑھنے کا مسئلہ نہیں رہا  یہ نظامِ حیات کے توازن کو متاثر کر رہا ہے۔
جہاں کبھی برف اور سردی کی شدت سے زندگی ممکن نہیں تھی، وہاں اب مچھر جیسے حساس جاندار زندہ رہنے لگے ہیں۔

یہ رجحان مستقبل میں نئی بیماریوں کے پھیلاؤ، غیر مقامی انواع کے غلبے اور ماحولیاتی نظام کی بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے۔
سائنسدانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے، جبکہ حکومتوں کے لیے ایک انتباہ  کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو نہ پایا گیا، تو آنے والے برسوں میں زمین کے ایسے کئی علاقے بدل جائیں گے جنہیں آج ہم "غیر آباد یا غیر موزوں” سمجھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں