Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

اگر مذاکرات طے نہیں پاتے تو ہماری اور افغانستان کی کُھلی جنگ ہے، خواجہ آصف

دوحہ میں جن طالبان رہنماؤں سے دنیا مذاکرات کر رہی تھی، وہ سب پاکستان میں پلے بڑھے
اگر مذاکرات طے نہیں پاتے تو ہماری اور افغانستان کی کُھلی جنگ ہے، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل نہ ہوئے تو پاکستان افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دہائیوں تک افغان عوام کے لیے قربانیاں دیں، لیکن اس کے باوجود کابل کی حکومت پاکستان کے خلاف بھارت کی پراکسی کے طور پر سرگرم ہے۔

سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی افواج اور پولیس ملک کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں۔ "ہم راتوں کو اس لیے چین سے سوتے ہیں کہ ہمارے محافظ جاگ رہے ہوتے ہیں،” انہوں نے فخر سے کہا۔

افغانستان کے رویے پر تشویش

خواجہ آصف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 40 برسوں تک افغان شہریوں کو پناہ، روزگار اور سہولیات فراہم کیں، لیکن بدقسمتی سے اب وہی ملک ہمارے خلاف دشمن کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق، "دوحہ میں جن طالبان رہنماؤں سے دنیا مذاکرات کر رہی تھی، وہ سب پاکستان میں پلے بڑھے، مگر آج وہی ہمارے لیے مسائل کھڑے کر رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ اتنی مہمان نوازی کے باوجود افغانستان ہمارے ساتھ دشمنی پر کیوں تُلا ہے۔”

افغان مہاجرین اور پاکستان کا مؤقف

وزیر دفاع نے کہا کہ افغان مہاجرین نے پاکستان کے مختلف شعبوں، خاص طور پر کاروبار اور روزگار میں غیر معمولی جگہ بنا لی ہے۔ ان کے مطابق، "ہمیں اپنے قومی مفادات کے لیے ایک واضح ایجنڈا اپنانا ہوگا۔ ہمسایہ ملک کے ساتھ اخوت اور برابری کی بنیاد پر رہنے کے خواہاں ہیں، لیکن اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پھر ہمارے پاس جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔”

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے سیکیورٹی کی صورتحال نسبتاً بہتر ہوئی ہے اور کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا، تاہم اگر افغانستان اپنی روش برقرار رکھتا ہے تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر قدم اٹھائے گا۔

مذاکرات کا پس منظر

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں جاری ہے۔ ان مذاکرات میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے نکات پر پیش رفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر پر اتفاق ہوا تھا اور سرحدوں کے احترام کو باہمی تعلقات کی بنیاد بنانے پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔

وزیر دفاع کے اس دوٹوک بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب افغانستان کے رویے پر شدید برہمی کا اظہار کر رہا ہے۔ طویل عرصے تک افغان مہاجرین کی میزبانی اور طالبان حکومت کی عالمی سطح پر حمایت کے باوجود کابل کی جانب سے مسلسل سرحدی خلاف ورزیاں اور دہشت گردی کے واقعات پاکستان کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔

اگر ترکیہ میں جاری مذاکرات میں کوئی بامعنی پیش رفت نہ ہوئی تو خطے میں ایک نیا تنازع جنم لے سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے سفارتی توازن برقرار رکھنا اور اپنے قومی سلامتی کے اہداف کا تحفظ کرنا سب سے بڑی ترجیح بن جائے گا۔

پاکستان کے بیانات سے یہ واضح پیغام جا رہا ہے کہ وہ امن کا خواہاں ضرور ہے، مگر کمزوری دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ اب یہ افغان قیادت پر منحصر ہے کہ وہ خطے کے استحکام کے لیے امن کی راہ اپناتی ہے یا تصادم کا راستہ چنتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں