روس میں ایک حیران کن اور تشویشناک واقعے نے طبی ماہرین، اخلاقی ماہرین اور سائنسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جہاں ایک خاتون نے اپنے ہونے والے بچے کی نیلی آنکھوں کی خواہش میں اپنی ہی آنکھوں کی رنگت تبدیل کروالی۔ یہ فیصلہ انہوں نے اس یقین پر کیا کہ ان کے جسمانی خدوخال میں تبدیلی سے ان کے بچے کی جینیاتی ساخت متاثر ہوگی۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، خاتون نے ایک غیر منظور شدہ کاسمیٹک سرجری کے ذریعے آئرس امپلانٹ کروایا، جس کا مقصد آنکھوں کے قدرتی رنگ کو نیلے رنگ میں تبدیل کرنا تھا۔ خاتون اس غلط فہمی کا شکار تھیں کہ آنکھوں کی یہ ظاہری تبدیلی ان کے آنے والے بچے کی آنکھوں کی رنگت پر براہِ راست اثر ڈالے گی۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سوچ سائنسی بنیادوں سے مکمل طور پر عاری ہے۔ انسانی آنکھوں کا رنگ والدین کے ڈی این اے میں موجود جینیاتی کوڈ پر منحصر ہوتا ہے، نہ کہ ان جسمانی تبدیلیوں پر جو بالغ ہونے کے بعد سرجری یا دیگر طریقوں سے کروائی جائیں۔ یعنی، آنکھوں کا رنگ تبدیل کروانے سے اگلی نسل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ماہرین کی رائے
ماہرین نے واضح کیا ہے کہ اس قسم کی سرجری نہ صرف بیکار ہے بلکہ صحت کے لیے بے حد خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ آنکھوں کے آئرس امپلانٹ کو اب تک عالمی طور پر کسی بھی اہم میڈیکل باڈی نے منظور نہیں کیا ہے۔ اس میں پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، جن میں بینائی کی کمی، قرنیہ (کارنیا) کو شدید نقصان، دائمی درد اور یہاں تک کہ مکمل اندھا پن بھی شامل ہیں۔
طبی ماہرین نے یہ بھی واضح کیا کہ اس نوعیت کے سرجری اقدامات جلدی کی خواہش اور لاعلمی کا نتیجہ ہیں، جن کا نتیجہ صرف جسمانی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین آنکھوں کی رنگت میں تبدیلی کے لیے ہونے والی سرجریوں سے خبردار کر چکے ہیں، کیونکہ ان کا نہ صرف طبی جواز کمزور ہے بلکہ اس سے طویل مدتی پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک سوالیہ نشان
اس واقعے نے روسی معاشرے میں نہ صرف کاسمیٹک سرجری کے بڑھتے رجحان کو اجاگر کیا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا سوشل پریشر، جسمانی خوبصورتی کے مخصوص معیار، اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والے غیر سائنسی دعوے لوگوں کو ایسے فیصلوں کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ ماہرین نفسیات کے مطابق، اس قسم کی جسمانی تبدیلی کی کوششیں بعض اوقات گہری جذباتی یا نفسیاتی کمزوریوں کا عکس ہوتی ہیں، جنہیں صرف جسمانی تبدیلی سے نہیں بدلا جا سکتا۔
روس میں نئی بحث
واقعے کے بعد روسی طبی حلقوں اور پالیسی ساز اداروں میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ کاسمیٹک سرجری کو کن اصولوں کے تحت کنٹرول کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر ایسی سرجریاں جو غیر ضروری ہوں یا جن کے پیچھے سائنسی بنیاد نہ ہو، انہیں انجام دینے والے سرجنز اور کلینکس کے لیے ضوابط سخت کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کئی ماہرین کا مطالبہ ہے کہ کاسمیٹک پروسیجرز سے متعلق عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ لوگوں کو حقیقت اور فسانے میں فرق سمجھایا جا سکے۔
یہ واقعہ صرف ایک فرد کی ذاتی غلط فہمی کا قصہ نہیں بلکہ ایک وسیع تر سماجی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں جسمانی خوبصورتی کو کامیابی، مقبولیت اور محبت کا معیار سمجھا جاتا ہے، وہیں سائنسی شعور کی کمی ایسے ناقابلِ واپسی فیصلوں کو جنم دیتی ہے۔ نیلی آنکھوں کو خوبصورتی کی علامت سمجھنے والی خاتون کی کوشش شاید جذباتی طور پر قابلِ فہم ہو، لیکن سائنسی لحاظ سے یہ ایک خام خیالی تھی جس نے ان کی بینائی کو دائمی خطرے میں ڈال دیا۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خوبصورتی کا تصور بدلتا رہتا ہے، لیکن انسانی جسم کی ساخت اور وراثتی نظام جیسے پیچیدہ حقائق کو سادہ سطح پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ علم، آگاہی، اور سائنسی شعور ہی ایسے رجحانات کو روک سکتے ہیں۔ والدین کی خواہشات اپنی جگہ، مگر آئندہ نسلوں کی صحت اور فطری ارتقا کو صرف ظاہری تبدیلیوں سے متاثر نہیں کیا جا سکتا۔
مزید یہ کہ میڈیکل پریکٹس میں اخلاقیات، ضابطہ کاری، اور تربیت یافتہ ماہرین کی موجودگی انتہائی ضروری ہے تاکہ انسانی جسم کو ایک تجربہ گاہ نہ بنا دیا جائے۔ بصورتِ دیگر، صرف ایک فرد نہیں، پورا معاشرہ ایسی غلط فہمیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔
سائنس کے بنیادی اصولوں کو سمجھے بغیر خوبصورتی کے نام پر کیے جانے والے خطرناک تجربات نہ صرف غیر مؤثر ہیں بلکہ انسانی صحت کے لیے خطرناک بھی۔ ایسی خبریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ سچائی سادہ ہے، مگر سچ تک پہنچنے کے لیے سیکھنا، سمجھنا اور صبر کرنا ضروری ہے۔
