تحریر:غلام مرتضی
کل رات دیر تک نیند نہیں آئی۔
ایسا اکثر ہوتا ہے جب دن بھر کی مصروفیت گزرنے کے بعد انسان اپنے آپ سے ملتا ہے۔
خاموشی میں، اندھیرے میں، روشنی سے دور…
اور وہاں صرف ایک ہی آواز ہوتی ہے اندر کی۔
وہ جو سارا دن دبی رہتی ہے، مصروفیات کے نیچے، تعلقات کے نیچے، خبروں اور سرخیوں کے نیچے۔
مگر رات کے آخری پہر میں، وہ دھیرے سے کان کے قریب آتی ہے اور پوچھتی ہے:
"تو خوش ہے؟”
کیا ہم خوش ہیں؟
کبھی سوچا ہے؟
یا خوشی بھی اب محض ایک پوسٹ ہے جس پر تبصرے آتے ہیں:
"ماشاءاللّٰہ”
"دل خوش ہو گیا”
"کاش ہم بھی وہاں ہوتے”
مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ وہ لمحہ گزرنے کے بعد کیسا لگتا ہے؟
کیا وہ خوشی اندر گئی، یا صرف کیمرے میں رہ گئی؟
ہم میں سے اکثر کی زندگی اب "ایڈیٹ شدہ” ہو چکی ہے
جیسے انسٹاگرام کی کوئی اسٹوری، جس میں صرف وہی رنگ رہنے دیے جاتے ہیں جو دنیا کو اچھے لگیں۔
جو دکھ، تھکن، یا خاموشی ہو اسے فلٹر سے مٹا دیا جاتا ہے۔
میں نے کل ایک پرانا دوست دیکھا۔
چہرے پر مسکراہٹ، قمیص پر استری، جوتے چمکتے ہوئے
مگر آنکھیں کہہ رہی تھیں، "کچھ کہو، میں سنوں گا۔”
میں نے صرف اتنا کہا: "سب ٹھیک ہے؟”
وہ ہنس پڑا، مگر آواز میں لرزش تھی۔
بولا: "سب ٹھیک ہے، بس… تھک گیا ہوں۔”
اور یہ "تھک گیا ہوں” — وہ جملہ نہیں، ایک داستان تھا۔
ہم سب تھک چکے ہیں
زندگی کو جیتے جیتے، خوش دکھاتے دکھاتے، سمجھاتے سمجھاتے۔
رشتوں کو نبھاتے، لفظوں کو تولتے، اور خوابوں کو دفناتے۔
اب دل چاہتا ہے کوئی پوچھے،
"سچ بتاؤ، تمہارا دل کیا چاہتا ہے؟”
مگر ہم جواب دینے سے گھبراتے ہیں،
کیونکہ شاید اب ہمیں خود بھی نہیں پتا —
کہ ہم کیا چاہتے ہیں، اور کیوں۔
میری اماں کہا کرتی تھیں
بیٹا، وقت سب کچھ بدل دیتا ہے، سوائے انسان کی اصل کے۔
اب لگتا ہے شاید وقت اصل کو بھی نگل گیا ہے۔
چونکہ اب لوگ وہ نہیں جو وہ نظر آتے ہیں
اور کبھی کبھی، وہ خود بھی نہیں جانتے کہ وہ کیا بن چکے ہیں۔
اور پھر ایسی ہی راتوں میں، جب نیند کہیں گم ہو جائے،
تو آدمی اپنے ماضی سے باتیں کرتا ہے۔
یادیں واپس آتی ہیں
کبھی وہ پرانا اسکول، وہ بچپن کی سائیکل، وہ آخری خط،
یا وہ شخص جسے ہم نے چھوڑا نہیں، وقت نے چھینا۔
پھر دل کہتا ہے
کاش کوئی ہو جو بس سن لے۔ کچھ کہے نہیں، بس سن لے۔
کوئی ایسا کندھا، جہاں سر رکھ کر آدمی کہہ سکے:
"بس، اب اور نہیں۔”
لیکن اب کندھے کم ہو گئے ہیں، اور تبصرے زیادہ۔
مشورے بہت ہیں، مگر خاموشی میں شریک کم۔
اس لیے باتیں اکثر "زیرِ لب” ہی رہ جاتی ہیں۔
آج کی رات بھی گزر جائے گی۔
کل پھر وہی معمول، وہی شور، وہی "سب ٹھیک ہے” کی اداکاری۔
مگر دل جانتا ہے، کہیں کچھ کمی ہے
اور وہ کمی صرف وہی سمجھ سکتا ہے
جو خود بھی کچھ کہے بغیر…
سب سن لیتا ہو۔
