Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

زیرِ لب

پڑھیے "زیرِ لب" کیونکہ اصل باتیں، ہمیشہ دھیمی آواز میں کہی جاتی ہیں۔
زیرِ لب

تعارفِ سیریز: "زیرِ لب”

تحریر: غلام مرتضی

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو نہ کہی جاتی ہیں، نہ سنی جاتی ہیں — مگر دل میں دیر تک گونجتی ہیں۔
ایسی ہی باتوں کو لفظوں کا روپ دے کر ہم پیش کر رہے ہیں "زیرِ لب” کے عنوان سے ایک سلسلہ وار کالم،
جہاں باتیں ہوں گی  کہی ہوئی، ان کہی، سنی ہوئی، سہنی ہوئی۔

"زیرِ لب” صرف ایک کالم نہیں، ایک کیفیت ہے۔
یہ اُن احساسات کی ترجمانی ہے جو ہمارے روزمرہ کے شور میں کہیں دب جاتے ہیں
– سیاست کے تلخ لمحات،
– سماج کی بدلتی سوچ،
– رشتوں کے نرم کونے،
– یادوں کی نمی،
– اور زندگی کی وہ سب باتیں، جو اکثر صرف "زیرِ لب” رہ جاتی ہیں۔

یہ کالم اُن سب کے لیے ہے جو سوچتے زیادہ، کہتے کم ہیں۔
جو لفظوں کی چکاچوند سے ہٹ کر، خلوص میں ڈوبے جملوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
جو جذبات کو سمجھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، اور کبھی کبھی چپ چاپ دل میں رکھ لیتے ہیں۔

"زیرِ لب” ہر قسط میں ایک نیا رنگ، ایک نئی سوچ، اور ایک نیا سوال لے کر آئے گا 
شاید آپ کے دل کی وہ بات جسے آپ نے کبھی کسی سے کہا ہی نہیں۔

پڑھیے "زیرِ لب” — کیونکہ اصل باتیں، ہمیشہ دھیمی آواز میں کہی جاتی ہیں۔

کبھی کبھار دل کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں نکل جاؤں  نہ موبائل ساتھ ہو، نہ خبریں، نہ تجزیے، نہ ہی وہ سیاسی بیانات جنہیں سن کر نہ ہنسی آتی ہے، نہ رونا۔
دل چاہتا ہے بس چپ رہوں۔ جیسے کوئی بات ہو جو زیرِ لب ہے، مگر زبان پر نہیں آتی۔

سیاستدان روز ٹی وی پر آ کر "قوم سے خطاب” کرتے ہیں۔ کبھی سوچا ہے یہ "قوم” کون ہے؟ وہ جو گیس کے بغیر ناشتہ بناتی ہے؟ وہ جو چینی خریدنے سے پہلے قیمتوں کا چار بار جائزہ لیتی ہے؟ یا وہ جو دو وقت کی روٹی کے درمیان دعائیں پڑھتی ہے کہ اگلا وقت بھی آ جائے؟میں اس قوم کا فرد ہوں۔ آپ بھی ہیں مگر "خطاب” کسی اور ہی سے ہوتا ہے، شاید ان بورڈ رومز سے جہاں فیصلے ہوتے ہیں کہ آج کن نکات پر قوم کو الجھایا جائے۔

گزشتہ دنوں ایک بچہ ملا، ہاتھ میں پھٹے ہوئے جوتے، مگر چہرے پر حیرت انگیز مسکراہٹ میں نے پوچھا "خوش ہو؟”کہنے لگا ابو نے کہا اسکول جاؤں گا!
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا   وہاں نہ کوئی سیاسی تجزیہ تھا، نہ خارجہ پالیسی، صرف ایک معصوم خواب تھا۔
اور وہ خواب شاید آج بھی کسی فائل کے نیچے دبا پڑا ہے، جس پر دستخط نہیں ہوئے۔

محبت کی بات کریں؟
محبت اب واٹس ایپ کے اسٹیٹس پر ہوتی ہے۔ایک وقت تھا لوگ خط لکھتے تھے، قلم سے دل نکالتے تھے، سیاہی آنکھوں کی نمی جیسی ہوتی تھی۔آج جذبات کی جگہ ایموجیز نے لے لی ہے۔
💔 = دل ٹوٹ گیا۔
😢 = رو دیا۔
😡 = غصہ۔
بس، اب اتنا ہی کافی ہے۔اصل درد، اصل محبت تو اب "زیرِ لب” ہی رہ گئی ہے۔

سماجی رویے دیکھیں تو ہر شخص تھکا ہوا ہے، مگر اس تھکن کو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ہم جینے کا ڈرامہ کر رہے ہیں، جیسے اسٹیج پر کھڑے ہوں اور سامنے تماشائی ہوں۔سب کچھ دکھا رہے ہیں، کچھ بھی محسوس نہیں کر رہے۔ایک دوسرے سے ملنے کی چاہ ہے،مگروقت نہیں  گفتگو کے لیے دل ہے، مگر زبان میں خلوص نہیں۔سلامت رہیں وہ لوگ جو اب بھی پوچھتے ہیں، "سچ سچ بتاؤ، کیسا لگ رہا ہے؟”ورنہ آج تو "کیسے ہو؟” محض رسمی سوال ہے، جواب کا کوئی انتظار نہیں۔

طنز کی بات کریں تو بس اتنا کہوں گاکبھی سوشل میڈیا پر تبصرے پڑھیں  "قومی مفاد” کے نام پر لوگ ایک دوسرے کی عزتیں اچھالتے ہیں، جیسے دشمن ملک کے خلاف کوئی جنگ لڑ رہے ہوں۔ہمیں یہ سکھا دیا گیا ہے کہ اختلاف دشمنی ہے۔
حالانکہ اختلاف وہ آئینہ ہے جو آپ کو اپنی سوچ کا دوسرا رخ دکھاتا ہے، بشرطیکہ آپ اسے دیکھنے کا حوصلہ رکھیں۔

اور پھر وہ لمحے آتے ہیں جو سب کچھ بدل دیتے ہیں  ایک فون کال، ایک خبر، ایک نظر۔زندگی رک جاتی ہے۔وقت تھم جاتا ہے۔
تب انسان سمجھتا ہے کہ اصل باتیں وہی ہوتی ہیں جو کبھی کہی ہی نہیں گئیں  بس زیرِ لب رہ گئیں۔

ایسے ہی لمحات میں دل کرتا ہے، سب کچھ لکھ دوں۔مگر نہیں  الفاظ کبھی مکمل نہیں ہوتے۔تحریریں ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں۔اور کچھ باتیں صرف "زیرِ لب” ہی اچھی لگتی ہیں۔

"زیرِ لب” صرف کالم کا نام نہیں  یہ اس کیفیت کا نام ہے جہاں انسان بہت کچھ کہنا چاہتا ہے، مگر چپ رہتا ہے۔
شاید اس لیے کہ دنیا چیخنے والوں کو سنتی ہے، مگر اصل سچ وہی ہوتا ہے جو خاموشی میں بولا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں