افغانستان کرکٹ ٹیم کے کپتان راشد خان کے حالیہ اقدام نے نہ صرف کرکٹ شائقین کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ خطے میں جاری کشیدہ سیاسی ماحول کو مزید ہوا دینے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی معروف فرنچائز لاہور قلندرز سے راشد خان کی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی، لیکن سوشل میڈیا پر اچانک اس رشتے کو توڑنے کے انداز نے ان کے کردار پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
راشد خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی بائیو سے ’’لاہور قلندرز‘‘ کا ذکر خاموشی سے ہٹا دیا۔ یہ عمل بظاہر معمولی لگ سکتا ہے، لیکن جب اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کے خلاف ایک متعصبانہ پوسٹ بھی شیئر کی، تو مداحوں اور ماہرین کے لیے یہ واضح اشارہ بن گیا کہ معاملہ صرف ذاتی نہیں، بلکہ جانبداری اور جذباتی ردعمل کی ایک جھلک ہے۔
قلندرز سے لاتعلقی، تعصب یا دباؤ؟
راشد خان پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کے ساتھ کئی سیزنز کھیل چکے ہیں، اور انہیں ٹیم کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کے اچانک بائیو سے قلندرز کا نام ہٹانے کو محض اتفاق یا انفرادی فیصلہ نہیں کہا جا سکتا، خصوصاً جب اسی کے ساتھ پاکستان مخالف جذبات کا اظہار بھی سامنے آئے۔
ان کے اس طرز عمل نے نہ صرف سوشل میڈیا صارفین بلکہ سابق کھلاڑیوں اور تجزیہ کاروں کو بھی چونکا دیا ہے۔ کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھنے کی کوشش کرنے والے حلقے اس اقدام کو افسوسناک قرار دے رہے ہیں۔
پاک افغان کشیدگی کا کھیل پر سایہ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ دنوں میں سیاسی اور سیکیورٹی سطح پر تنازع شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس ماحول کا اثر اب کھیل کے میدان میں بھی دیکھا جا رہا ہے، جہاں افغانستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ طے شدہ سہ فریقی سیریز سے باضابطہ طور پر دستبرداری اختیار کر لی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اس پیش رفت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اب کسی اور ٹیم کے ساتھ اس سیریز کا انعقاد کرے گا۔ اس فیصلے نے دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
کرکٹ مداحوں کا شدید ردعمل
راشد خان کے لاہور قلندرز سے علیحدگی اور پاکستان مخالف پوسٹ نے پاکستانی کرکٹ شائقین کے دلوں میں مایوسی اور غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر سینکڑوں صارفین نے ان کے اس رویے کو غیر پیشہ ورانہ اور تعصبانہ قرار دیا، جب کہ کچھ نے تو انہیں مستقبل میں پی ایس ایل میں شرکت سے روکنے کا بھی مطالبہ کیا۔
کرکٹ کے معروف مبصرین نے بھی راشد خان کے طرزِ عمل کو کھیل کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیل ہمیشہ بھائی چارے، امن اور عوامی تعلقات کو فروغ دینے کا ذریعہ ہونا چاہیے، نہ کہ قوم پرستی اور تعصب کا ہتھیار۔
کرکٹ یا نفسیاتی جنگ کا میدان؟
راشد خان جیسے کھلاڑی سے جو بین الاقوامی سطح پر کھیل چکا ہو اور کئی ممالک میں مقبول ہو، اس طرح کا اقدام توقعات کے برعکس ہے۔ ان کے لاہور قلندرز سے لاتعلقی کا فیصلہ اور ساتھ ہی پاکستان کے خلاف متعصبانہ پوسٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب کھلاڑی بھی سیاسی کشیدگی کا شکار ہو رہے ہیں یا دانستہ طور پر اس میں شامل کیے جا رہے ہیں۔
یہ نہ صرف کھیل کی غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے کھلاڑیوں کی بین الاقوامی شناخت اور کردار پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ کھیل کبھی بھی نفرت، تعصب یا سیاسی انتقام کا میدان نہیں ہونا چاہیے۔ اگر راشد خان جیسے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی اس روش پر چل نکلیں گے تو پھر کھیل اور سیاست کے درمیان جو باریک لکیر ہے، وہ مزید دھندلا جائے گی۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ اور پی ایس ایل فرنچائزز کو بھی چاہیے کہ ایسے کھلاڑیوں کے رویے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں، تاکہ کھیل کے وقار، غیر جانبداری اور دوستانہ ماحول کو برقرار رکھا جا سکے۔
راشد خان کی جانب سے بظاہر معمولی اقدام، جیسے بائیو سے لاہور قلندرز کا ذکر ہٹانا، دراصل ایک گہری علامت ہے جس نے کھیل سے جڑے افراد کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا کرکٹ کو سفارتی تعلقات کی بہتری کا ذریعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، کھلاڑیوں کو بھی اپنے اقدامات کے اثرات کو سمجھنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، کھیل نفرت کی دیواروں کے نیچے دب جائے گا اور شائقین صرف اس کے ملبے کو ہی یاد رکھیں گے۔
