امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی سفارتی طاقت اور اثر و رسوخ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کو فوری طور پر ختم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس تنازعے کے حل کو "بہت آسان” قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں جنگوں کا خاتمہ پسند ہے، اور وہ خطے میں امن کے قیام کے خواہاں ہیں۔
اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر پیدا ہونے والی تازہ کشیدگی سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور اس صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ معاملات بات چیت سے حل ہوں اور جنگ کے بجائے امن کی فضا قائم ہو۔
"مجھے جنگیں رکوانا پسند ہے”
صدر ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں پرزور انداز میں کہا کہ وہ ہمیشہ تنازعات کے خاتمے کے حق میں رہے ہیں۔ "مجھے جنگیں رکوانا پسند ہے۔ اگر میں چاہوں تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ جنگ آج ہی ختم کروا سکتا ہوں۔ یہ میرے لیے کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں ہے،” انہوں نے اعتماد بھرے انداز میں کہا۔
ٹرمپ نے اپنے ماضی کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جب وہ چاہیں، بڑی اور پیچیدہ جنگیں بھی روک سکتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک بار پھر پاک بھارت تناؤ کی مثال دی۔
"میں نے پاک بھارت جنگ ختم کر کے لاکھوں جانیں بچائیں”
صدر ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ذاتی طور پر ان سے اس بات کا اظہار کیا کہ اگر وہ بروقت مداخلت نہ کرتے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ جاتی، جس کے نتیجے میں لاکھوں جانیں خطرے میں پڑ جاتیں۔ ان کے مطابق، یہی سفارتی مہارت اور بروقت اقدامات تھے جنہوں نے دونوں جوہری طاقتوں کو کسی بڑے تصادم سے بچا لیا۔
حالیہ سرحدی کشیدگی
چند ہفتوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تناؤ میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا، جب افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس میں درجنوں خوارج ہلاک ہوئے۔
ان کارروائیوں نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو شدت بخشی، مگر بعد ازاں فریقین ابتدائی طور پر 48 گھنٹوں کی جنگ بندی پر متفق ہو گئے۔ تاہم، اس جنگ بندی کو اب عارضی طور پر توسیع دے دی گئی ہے۔
دوحہ مذاکرات
سفارتی ذرائع کے مطابق، افغان طالبان حکومت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کے حوالے سے جاری بات چیت دوحہ، قطر میں جاری ہے۔ ان مذاکرات کو دونوں ممالک کے لیے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں بلکہ مستقبل کے لیے ایک دیرپا فریم ورک بھی تیار کر سکتے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ ہفتے کے روز اعلیٰ سطح کے مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں جن میں دونوں فریقین اپنے اپنے تحفظات اور تجاویز سامنے رکھیں گے۔
حقیقت یا خوداعتمادی؟
ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ بات کہ "پاکستان اور افغانستان کی جنگ ختم کرانا میرے لیے بہت آسان ہے” سننے میں تو سادہ لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک غیرمعمولی دعویٰ ہے جو کئی سفارتی، سیاسی اور زمینی پیچیدگیوں کو نظرانداز کر جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ اور ٹرمپ کی ذاتی ڈپلومیسی بعض مواقع پر کارگر ثابت ہوئی ہے، تاہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی محض دو ممالک کے باہمی تنازعے تک محدود نہیں — اس کے پیچھے دہائیوں پر محیط بداعتمادی، پراکسی عناصر، سرحدی تنازعات، اور دہشت گردی جیسے گہرے مسائل شامل ہیں۔
ٹرمپ کا خود کو امن کا پیامبر ظاہر کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ ان کا بیانیہ ماضی میں شمالی کوریا، اسرائیل-فلسطین، اور ایران جیسے تنازعات کے حوالے سے بھی سامنے آ چکا ہے۔ تاہم، ان کی بیشتر کوششیں عارضی سفارتی کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔
اس صورتحال میں ٹرمپ کا دعویٰ کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان جنگ فوراً ختم کروا سکتے ہیں، بظاہر خوش آئند تو لگتا ہے، لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا وہ ظاہر کر رہے ہیں۔ اس میں طالبان حکومت کی سوچ، پاکستانی سیکیورٹی مفادات، دہشت گرد نیٹ ورکس کا خاتمہ، اور افغان سرزمین کے مؤثر استعمال جیسے کئی فیکٹرز شامل ہیں۔
تاہم اگر امریکہ واقعی ان مذاکرات کی پشت پناہی کرتا ہے اور دونوں ممالک کو سیاسی و سفارتی معاونت فراہم کرتا ہے تو شاید یہ کشیدگی ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے بچ جائے۔
ٹرمپ کے حالیہ بیان نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ پاکستان-افغانستان سرحدی کشیدگی کی طرف مبذول کر دی ہے۔ خواہ ان کا انداز مبالغہ آمیز ہو یا حقیقت سے قریب، اگر اس کا نتیجہ کسی بڑے انسانی المیے کو روکنے میں نکلتا ہے تو یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہوگی۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف بیانات سے نہیں بلکہ مسلسل، مخلص اور دوراندیش سفارتکاری سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
