بھارت کی آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی کے دعوے ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گئے ہیں، جب امریکہ کے دباؤ کے نتیجے میں نئی دہلی نے روسی تیل کی درآمدات میں نمایاں کمی کر دی۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی ریفائنریوں نے روس سے خام تیل کی خریداری 50 فیصد تک کم کر دی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارت عالمی طاقتوں کے دباؤ سے خود کو آزاد نہیں رکھ پایا۔
امریکہ کا سخت مؤقف، بھارت کا جھکاؤ
واشنگٹن ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں امریکہ اور بھارت کے درمیان کئی اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوئے جن میں امریکی حکام نے واضح طور پر بھارت کو خبردار کیا کہ اگر روسی تیل کی خریداری جاری رکھی گئی تو نئی دہلی کو شدید اقتصادی دباؤ، اضافی محصولات اور ممکنہ طور پر تجارتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان مذاکرات کے بعد، بھارتی حکومت نے خاموشی سے روسی تیل پر انحصار کم کرنے کا فیصلہ کیا، اور ابتدائی طور پر تیل کی درآمدات میں واضح کمی کر دی گئی۔
ریفائنریوں کا فیصلہ، مرحلہ وار انحراف کی منصوبہ بندی
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی بڑی ریفائنری کمپنیاں، جن میں ریلائنس، انڈین آئل اور بھارت پیٹرولیم شامل ہیں، مرحلہ وار روسی تیل پر انحصار کم کرنے کی تیاری کر چکی ہیں۔ یہ عمل رواں سال دسمبر سے شروع ہونے کا امکان ہے، جس کے تحت بھارت، روس کے بجائے خلیجی ممالک اور امریکہ سے تیل کی درآمدات میں اضافہ کرے گا۔
ریفائنری عہدیداران کا کہنا ہے کہ نئی تجارتی پالیسی کی روشنی میں روسی تیل کی خریداری کو محدود کرنا ایک “اسٹریٹیجک فیصلہ” ہے، جس کا مقصد ممکنہ امریکی پابندیوں سے بچنا ہے، لیکن اصل محرک امریکی دباؤ ہی قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کا دعویٰ، مودی کا وعدہ
یہ معاملہ اُس وقت کھل کر سامنے آیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں میڈیا سے گفتگو کے دوران فخریہ انداز میں کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں روسی تیل کی خریداری روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ٹرمپ نے کہا:
“مجھے بھارت کی روس سے تیل خریداری پر سخت اعتراض تھا۔ لیکن میں نے مودی سے بات کی، اور اب وہ روسی تیل نہیں خریدیں گے۔ معاملہ طے پا گیا ہے۔”
ٹرمپ کے اس بیان نے ایک بار پھر بھارت کی نام نہاد خودمختاری پر سوالیہ نشان لگا دیا، جو بظاہر عالمی اسٹیج پر خود کو ایک خودمختار پالیسی کا حامل ملک ظاہر کرتا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کی وضاحت، یا پردہ پوشی؟
معاملہ سامنے آنے کے بعد بھارت کی وزارت خارجہ نے حسبِ روایت اس بات کی تردید کی کہ روسی تیل کی خریداری میں کمی امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ترجمان نے اس فیصلے کو "تجارتی اور اسٹریٹیجک عوامل” سے منسلک قرار دیا۔ تاہم، نہ تو انہوں نے ٹرمپ کے بیان کو چیلنج کیا اور نہ ہی واضح طور پر مودی کے مبینہ وعدے کی تردید کی، جس سے شکوک مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
بھارت کی روس سے قربت میں کمی
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس-یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد بھارت نے سستا تیل خریدنے کے لیے روس سے قربت بڑھائی تھی، جس پر امریکہ اور مغربی اتحادی سخت نالاں تھے۔ لیکن حالیہ امریکی دباؤ اور معاشی مفادات کے تحت بھارت اب ایک بار پھر مغرب کے قریب ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس سے جنوبی ایشیا کی اسٹریٹیجک صف بندی میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔
بھارت ہمیشہ سے خود کو "عالمی طاقتوں کے درمیان توازن” رکھنے والا ملک ظاہر کرتا آیا ہے، لیکن موجودہ صورتحال نے واضح کر دیا ہے کہ نئی دہلی کی پالیسیاں محض طاقتور ممالک کی مرضی کے تابع ہیں۔ روس سے تیل کی خریداری میں کمی نہ صرف بھارت کے معاشی مفادات کے خلاف ہے بلکہ اس کے خارجہ پالیسی کے بیانیے کی بھی نفی کرتی ہے۔
اس تبدیلی کا سب سے بڑا نقصان بھارت کو خود ہوگا، جو روس سے ارزاں نرخوں پر تیل خرید کر اپنی ریفائنری صنعت کو سہارا دے رہا تھا۔ اب امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں بھارت مہنگے داموں تیل خریدے گا، جس کا بوجھ بالآخر بھارتی صارفین پر پڑے گا۔
ٹرمپ کا کھلا دعویٰ اور بھارتی وزارت خارجہ کی مبہم وضاحت یہ ظاہر کرتی ہے کہ بھارت اب بھی خود کو عالمی دباؤ سے آزاد رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر بھارت واقعی خودمختار خارجہ پالیسی پر یقین رکھتا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں میں شفافیت اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ورنہ دنیا یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گی کہ بھارت صرف الفاظ کا خودمختار ہے، عمل کا نہیں
