حال ہی میں سامنے آنے والی ایک جامع تحقیق نے اس بات کے پختہ شواہد فراہم کیے ہیں کہ خواتین میں ڈپریشن کا جینیاتی امکان مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس مطالعے نے نہ صرف مرد و عورت کے درمیان جینیاتی فرق کو اجاگر کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ ڈپریشن کی وجوہات میں جینیاتی، ہارمونی، ماحولیاتی اور سماجی عناصر سب کا کردار شامل ہوتا ہے۔
یہ تحقیق آسٹریلیا کے معروف برگوفر میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے انجام دی، جس میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کے ڈی این اے کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا۔ اس تجزیے سے پتہ چلا کہ خواتین میں ایسے تقریباً 6,000 جینیاتی تغیرات (genetic variants) پائے گئے جو ڈپریشن کے امکانات کو بڑھاتے ہیں، جب کہ مردوں میں ان منفرد جینیاتی تبدیلیوں کی تعداد نسبتاً کم تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں ایسے مشترکہ جینیاتی مارکرز (genetic markers) بھی دریافت ہوئے جو دونوں جنسوں میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم، محققین کے مطابق عورتوں میں “genetic burden” یعنی جینیاتی دباؤ زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن سے زیادہ متاثر ہوسکتی ہیں۔
تحقیق میں مزید یہ نتیجہ سامنے آیا کہ عورتوں میں ڈپریشن کے جینیاتی عوامل کا تعلق وزن میں تبدیلی، توانائی کی کمی، اور جسمانی تھکن جیسے مسائل سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین میں ڈپریشن کی علامات اکثر مردوں سے مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں — بعض اوقات وہ زیادہ حساسیت، بے چینی، یا تھکن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔
اس کے ساتھ یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ عورتیں اپنے ذہنی مسائل پر زیادہ کھل کر بات کرتی ہیں اور مدد حاصل کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے خواتین میں ڈپریشن کے کیسز زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، مرد عمومی طور پر اپنے جذبات کو چھپاتے ہیں یا ان کا اظہار مختلف طریقے سے کرتے ہیں، مثلاً غصہ یا تنہائی کے ذریعے۔
تحقیق نے یہ بھی نشاندہی کی کہ زیادہ تر مطالعات یورپی نسل کے افراد پر مبنی ہیں، اس لیے یہ بات ابھی واضح نہیں کہ یہی نتائج دیگر نسلی یا جغرافیائی آبادیوں پر بھی لاگو ہوں گے یا نہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آئندہ تحقیقات میں مختلف قومیتوں اور معاشرتی پس منظر رکھنے والے افراد کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ ایک جامع تصویر سامنے آسکے۔
یہ تحقیق اس حقیقت کو مزید تقویت دیتی ہے کہ خواتین کی ذہنی صحت ایک نہایت پیچیدہ اور حساس موضوع ہے، جو صرف جذباتی یا سماجی عوامل پر منحصر نہیں بلکہ اس کے پیچھے گہرے جینیاتی اثرات بھی کارفرما ہیں۔ عورتوں پر ہارمونی تبدیلیوں، معاشرتی دباؤ، اور زندگی کے مختلف ادوار — جیسے حمل، زچگی، یا مینوپاز — کے اثرات ان کے دماغی توازن کو مزید متاثر کرتے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اس تحقیق کو عالمی سطح پر وسعت دی جائے تو ڈپریشن کے علاج میں صنفی فرق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مخصوص حکمتِ عملیاں تیار کی جاسکتی ہیں۔ یہ نتائج نہ صرف ذہنی صحت کے میدان میں نئی راہیں کھولتے ہیں بلکہ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ خواتین کے نفسیاتی مسائل کو سنجیدگی سے سمجھنا اور ان پر بروقت توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
