غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے اسرائیلی حکومت نے نیا موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جب تک کابینہ باضابطہ طور پر معاہدے کی منظوری نہیں دیتی، جنگ بندی نافذ نہیں ہوگی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ اعلان وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ غزہ جنگ بندی پر عمل درآمد کا آغاز صرف اُس وقت ممکن ہوگا جب کابینہ اجلاس میں معاہدے کی منظوری دی جائے گی۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا ہے، جبکہ مصری میڈیا نے یہ خبر دی کہ معاہدہ دستخط ہونے کے فوراً بعد نافذ العمل ہو چکا ہے۔ تاہم اسرائیلی حکومت نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی معاہدہ عملی طور پر نافذ نہیں ہوا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مصری ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ جنگ بندی معاہدہ قاہرہ میں دوپہر کے وقت دستخط ہونے کے بعد عملی طور پر شروع ہوگیا ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومتی نمائندوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ معاہدے کو پہلے کابینہ کی منظوری درکار ہے، اور اس مقصد کے لیے آج شام 6 بجے ایک اہم اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں جنگ بندی معاہدے پر ووٹنگ کرائی جائے گی، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کابینہ اسے متفقہ طور پر منظور کر لے گی۔ منظوری کے بعد جنگ بندی کو باضابطہ طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان شوش بدروسیان کے مطابق، کابینہ سے منظوری ملنے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر غزہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ آج مصر میں غزہ جنگ بندی معاہدے پر دونوں فریقین نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے تحت جنگ کو چند روز کے لیے عارضی طور پر روکا جائے گا، امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے دیا جائے گا، اور یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائے گا۔
اسرائیل کا اچانک موقف بدلنا سیاسی اور سفارتی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک طرف عالمی سطح پر غزہ میں انسانی بحران پر شدید دباؤ ہے، تو دوسری جانب اسرائیلی حکومت اندرونی سیاسی مخالفتوں اور انتہاپسند حلقوں کے دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔
کابینہ سے منظوری کی شرط دراصل اسرائیلی قیادت کی احتیاطی حکمتِ عملی معلوم ہوتی ہے تاکہ کسی بھی فیصلہ کو اندرونی حمایت کے ساتھ نافذ کیا جا سکے۔ دوسری جانب، جنگ بندی میں تاخیر غزہ کے عام شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج لا سکتی ہے، کیونکہ وہاں پہلے ہی غذائی قلت، پانی کی کمی اور اسپتالوں کی تباہی نے بحران کو سنگین بنا دیا ہے۔
اگر کابینہ معاہدے کو منظوری دے دیتی ہے تو یہ خطے میں عارضی سکون کا باعث بنے گا، مگر دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ فریقین سیاسی حل کی جانب بڑھیں۔ بصورت دیگر، یہ جنگ بندی بھی محض عارضی وقفہ ثابت ہوسکتی ہے۔
