Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

اسرائیل اور حماس میں امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق،جنگ بندی آج متوقع

یہ دن نہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں بلکہ پوری عرب و مسلم دنیا، خطے کے ہمسایہ ممالک اور امریکا کے لیے ایک یادگار دن ہے۔
اسرائیل اور حماس میں امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق،جنگ بندی آج متوقع

امریکا کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان برسوں سے جاری خونریز تنازع کے خاتمے کے لیے ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ دونوں فریقین نے غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے، جس کا بنیادی مقصد جنگ کا اختتام اور خطے میں انسانی بحران کو کم کرنا ہے۔

یہ تاریخی پیش رفت مصر کے شہر شرم الشیخ میں طے پانے والے مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئی، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براہِ راست کردار ادا کیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں اعلان کیا کہ معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے گا، جبکہ اسرائیلی افواج غزہ پٹی سے مرحلہ وار انخلا کریں گی۔

صدر ٹرمپ نے اس اقدام کو “امن کے طویل سفر کی پہلی بڑی جیت” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ہم ایک ایسے تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں جہاں انصاف اور امن دونوں کا توازن برقرار رکھنا سب سے بڑی کامیابی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل میں شامل تمام فریقین کے ساتھ انصاف، احترام اور مساوات پر مبنی رویہ اپنایا جائے گا۔

انہوں نے خصوصی طور پر قطر، مصر اور ترکی کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے ثالثی کے عمل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ صدر ٹرمپ کے بقول، “یہ دن نہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں بلکہ پوری عرب و مسلم دنیا، خطے کے ہمسایہ ممالک اور امریکا کے لیے ایک یادگار دن ہے۔ یہ امن کی نئی صبح ہے۔”

ذرائع کے مطابق، غزہ میں جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان آج متوقع ہے، جس کی تفصیلات آئندہ چند روز میں منظرِ عام پر لائی جائیں گی۔

ادھر قطری وزارتِ خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ امن معاہدے کے ابتدائی مرحلے پر فریقین میں اتفاق ہو چکا ہے۔ وزارت کے ترجمان کے مطابق، “پہلے مرحلے میں جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، اور انسانی امداد کی مکمل بحالی شامل ہے۔”

اس معاہدے کے بعد خطے میں ایک نئی امید نے جنم لیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے مختصر بیان میں کہا کہ “ہم اپنے تمام شہریوں کو محفوظ طور پر واپس لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ معاہدہ یرغمالیوں کی بازیابی کی سمت پہلا مثبت قدم ہے۔”

ذرائع کے مطابق، آئندہ مرحلوں میں غزہ میں تعمیرِ نو، انسانی امداد کے محفوظ راستے، اور فریقین کے درمیان سیاسی فریم ورک کی تشکیل پر بات چیت جاری رہے گی۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان اس معاہدے کو بلاشبہ خطے میں امن کی سب سے اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ برسوں سے جاری جنگ، تباہی، اور انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد اب ایک ایسا موقع آیا ہے جو اگر صحیح سمت میں آگے بڑھا تو مشرقِ وسطیٰ میں استحکام اور تعاون کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ سفارتی کامیابی نہ صرف ان کی بین الاقوامی سیاست میں واپسی کی علامت ہے بلکہ امریکا کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ وہ خطے میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ دوبارہ قائم کر سکے۔ قطر، مصر اور ترکی کا کردار اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلم ممالک اب خطے میں امن کے ضامن اور ثالث کے طور پر ابھر رہے ہیں۔

تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہ محض پہلا قدم ہے — اصل چیلنج ابھی باقی ہے۔ ماضی میں کئی امن معاہدے اعتماد کے فقدان اور یکطرفہ اقدامات کے باعث ناکام ہو چکے ہیں۔ اگر اس بار دونوں فریقین نے سیاسی بصیرت اور انسانی ہمدردی سے کام لیا، تو شاید غزہ کی سرزمین پر برسوں بعد پہلی بار امن کا سورج طلوع ہو۔

دنیا کی نظریں اب اس جنگ بندی کے اعلان اور اس کے عملی نفاذ پر مرکوز ہیں۔ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے، تو یہ معاہدہ نہ صرف غزہ بلکہ پوری دنیا کے لیے امن کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں