عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دنیا بھر میں نوجوانوں کے درمیان ای-سگریٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس رجحان کو صحتِ عامہ کے لیے ایک نیا خطرہ قرار دیا ہے۔ ادارے نے واضح طور پر کہا ہے کہ ای-سگریٹ نوجوان نسل کو نِکوٹین کے عادی بنا رہی ہیں، جس سے مستقبل میں تمباکو نوشی کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی تازہ رپورٹ کے مطابق 13 سے 15 سال کی عمر کے نوجوانوں میں ای-سگریٹس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور یہ رجحان اب ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ یہ ایک “نِکوٹین نیا عارضہ” ہے — جس کے ذریعے نوجوان آہستہ آہستہ نِکوٹین ڈیپینڈنسی میں مبتلا ہو رہے ہیں، جو بعد میں روایتی سگریٹ نوشی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ای-سگریٹس کے بخارات میں موجود خطرناک اور زہریلے مادّے (ٹاکسک سبسٹنسز) دل، پھیپھڑوں اور دماغ پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے یہ خطرہ زیادہ ہے جن کی نشوونما ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ یہ بخارات انسانی جسم کے حساس اعضاء میں ایسے نقصان دہ اثرات پیدا کرتے ہیں جن کے اثرات طویل مدت تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ ای-سگریٹس کو عام طور پر نوجوانوں کے لیے پرکشش انداز میں مارکیٹ کیا جاتا ہے۔ ان میں میٹھے ذائقے، فلیورز، دلکش رنگین پیکنگ اور سوشل میڈیا پر دل فریب تشہیر شامل ہے، جو کم عمر صارفین کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ ادارے کے مطابق یہ سب اقدامات دراصل نئی نسل کو نِکوٹین کے جال میں پھنسانے کی ایک منظم حکمتِ عملی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک کو فوری طور پر جامع اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے تاکہ اس بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ ادارے نے درج ذیل سفارشات پیش کی ہیں:
-
ای-سگریٹس کی خریداری کے لیے کم از کم عمر مقرر کی جائے اور عمر کی تصدیق (Age Verification) کے نظام کو سخت بنایا جائے۔
-
ذائقوں، خوشبوؤں، رنگین پیکنگ اور کم عمر صارفین کو لبھانے والی تشہیر یا پروموشن پر مکمل یا جزوی پابندی لگائی جائے۔
-
ٹیکسز اور قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ یہ مصنوعات عام یا کم عمر خریداروں کی پہنچ سے باہر ہوں۔
-
والدین، اساتذہ، اور تعلیمی اداروں کو ای-سگریٹس کے نقصانات سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے تاکہ نئی نسل کو بروقت بچایا جا سکے۔
-
حکومتیں قانون سازی اور سخت ضوابط کے ذریعے ای-سگریٹس کی درآمد، فروخت، اشتہار بازی اور استعمال پر مکمل کنٹرول قائم کریں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اگر اب اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں دنیا ایک نئی نِکوٹین ایپیڈیمک کا سامنا کرے گی، جس کے اثرات روایتی تمباکو نوشی سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
نوجوانوں میں ای-سگریٹس کا بڑھتا ہوا رجحان محض ایک “فیشن” نہیں بلکہ صحت کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ سوشل میڈیا، اشتہارات اور رنگین پیکنگ کے ذریعے یہ مصنوعات ایک “cool lifestyle” کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں، مگر حقیقت میں یہ نوجوانوں کے جسم اور دماغ پر تباہ کن اثر ڈال رہی ہیں۔
اگرچہ بہت سے لوگ ای-سگریٹس کو روایتی سگریٹ کا “محفوظ متبادل” سمجھتے ہیں، مگر طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک نیا زہریلا فریب ہے، جس سے نِکوٹین کی لت مزید گہری ہو جاتی ہے۔
دنیا بھر کی حکومتوں کو اب فیصلہ کن قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صرف وارننگز یا آگاہی مہمات کافی نہیں، بلکہ قانونی پابندیوں، سخت نگرانی اور سوشل میڈیا ریگولیشن کے ذریعے نوجوان نسل کو اس لت سے بچانا ہوگا۔ ورنہ وہ نسل جو مستقبل سنوارنے والی ہے، وہ خود نِکوٹین کے شکنجے میں جکڑ جائے گی۔
یہ وقت ہے کہ والدین، اساتذہ، اور پالیسی ساز مل کر یہ سمجھیں کہ ای-سگریٹس ایک “نئی تمباکو وبا” ہیں — اور اگر اب قدم نہ اٹھایا گیا، تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
