Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

سیز فائر معاہدے میں کوئی ٹائم لائن نہیں، امن قائم رکھنے کی ذمہ داری افغانستان پر ہے: خواجہ آصف

معاہدے کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کسی قسم کی دراندازی یا دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دینا ہرگز قابل قبول نہیں
سیز فائر معاہدے میں کوئی ٹائم لائن نہیں، امن قائم رکھنے کی ذمہ داری افغانستان پر ہے: خواجہ آصف

اسلام آباد ؛ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر میں ہونے والے سیز فائر معاہدے کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، جن میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی کی کوئی مدت طے نہیں کی گئی، اور معاہدہ صرف اس صورت میں مؤثر رہے گا جب اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔

وزیر دفاع نے پیر کو جاری بیان میں کہا کہ سیز فائر معاہدے کی شقوں میں یہ بات دو ٹوک انداز میں شامل کی گئی ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ معاہدے کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کسی قسم کی دراندازی یا دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دینا ہرگز قابل قبول نہیں۔

"ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین پر سہولت دینا ناقابل قبول ہے”

خواجہ آصف نے واضح کیا کہ پاکستانی مؤقف ابتدا سے یہی رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں کوئی جگہ یا معاونت نہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بارہا افغان حکام کو آگاہ کیا کہ اگر ٹی ٹی پی کو وہاں سے کارروائیاں کرنے کی اجازت دی جاتی رہی تو امن قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اکثر ان الزامات سے انکار کرتا رہا ہے، تاہم قطر اور ترکیے نے سیز فائر معاہدے کے دوران ثالثی کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اصل مسئلہ ٹی ٹی پی کی سرپرستی یا موجودگی ہے۔

"معاہدے کا دار و مدار صرف ایک شرط پر ہے”

خواجہ آصف نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہم نے افغان قیادت پر واضح کیا کہ موجودہ سیز فائر معاہدہ ایک بنیادی شرط پر قائم ہے: افغان سرزمین سے پاکستان میں کسی قسم کی دہشت گردی نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ شرط نہ صرف پاکستان کی سلامتی سے جڑی ہے بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ معاہدے میں کسی بھی مقررہ مدت کا ذکر نہیں کیا گیا، نہ ہی یہ طے ہوا کہ سیز فائر ایک خاص مدت کے بعد خود بخود ختم ہو جائے گا یا اس میں توسیع کی جائے گی۔

"معاہدہ غیر معینہ مدت کے لیے ہے”

خواجہ آصف کے مطابق، جب تک اس معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جنگ بندی موثر رہے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ فریقین میں اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ سیز فائر خودکار طریقے سے معطل نہیں ہوگا بلکہ صرف اس صورت میں ختم ہوگا جب اس کی کسی شرط کی خلاف ورزی ہوگی۔

"اگلی ملاقات ترکیے میں طے”

یاد رہے کہ کچھ روز قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پاکستان اور افغانستان کے مابین اہم سیز فائر معاہدہ طے پایا تھا، جس میں ترکیے اور قطر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس معاہدے پر مزید پیش رفت کے لیے دونوں ممالک کے وفود کی اگلی ملاقات 25 سے 27 اکتوبر کے دوران ترکیے میں ہونے جا رہی ہے، جہاں عمل درآمد کے طریقہ کار پر تفصیلی گفتگو متوقع ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا یہ سیز فائر معاہدہ بلاشبہ ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے، جو نہ صرف دو ہمسایہ ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکتا ہے بلکہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس معاہدے کی سب سے اہم بات اس کی غیر معینہ مدت ہے، جو ایک جانب لچک کا مظہر ہے تو دوسری طرف اعتماد کی ناپختہ بنیاد کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

خواجہ آصف کے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی کا خاتمہ اور افغان سرزمین سے اس کی معاونت کا بند ہونا پہلی اور آخری شرط ہے۔ معاہدے میں وقت کی قید نہ ہونا، فریقین کی نیت پر اعتماد کی ایک علامت ہو سکتی ہے، لیکن عملی طور پر یہ صرف اسی وقت کامیاب ہوگا جب دونوں ممالک اس پر مکمل سنجیدگی سے عمل کریں۔

ترکیے میں ہونے والی آئندہ ملاقات اس معاہدے کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہوگی۔ اگر افغانستان معاہدے کی روح کے مطابق اپنی زمین دہشت گرد عناصر کے لیے بند رکھتا ہے تو یہ نہ صرف دو طرفہ اعتماد کی بحالی میں مدد دے گا بلکہ جنوبی ایشیا میں امن کی نئی امید بھی بن سکتا ہے۔

تاہم اگر ماضی کی طرح وعدے محض الفاظ تک محدود رہے، تو یہ سیز فائر بھی ایک عارضی وقفہ ہی ثابت ہوگا، جو دوبارہ بداعتمادی اور کشیدگی کی راہ ہموار کرے گا۔ وقت بتائے گا کہ دوحہ میں کیا گیا یہ معاہدہ محض ایک سفارتی اقدام تھا یا خطے میں پائیدار امن کی بنیاد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں