امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر عالمی سطح پر تہلکہ خیز بیان دے کر مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ بڑھا دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ اگر حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی، تو وہ اسرائیل کو غزہ میں دوبارہ بھیجنے اور حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا حکم دینے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے گفتگو کے دوران کہا کہ امریکہ اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے، اور وہ امید رکھتے ہیں کہ حماس اس پر مکمل عمل درآمد کرے گی۔ تاہم، انہوں نے تنبیہ کی کہ اگر حماس نے اس معاہدے کو نظر انداز کیا، یا خلاف ورزی کی، تو اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوں گے۔ ان کے مطابق، "اگر میں چاہوں تو اسرائیلی فوج دو منٹ میں غزہ میں داخل ہو کر حماس کا خاتمہ کر سکتی ہے۔”
ٹرمپ کا سخت موقف
امریکی صدر نے اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال وہ صورتحال کو ٹھنڈا رکھنے اور جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں، لیکن ساتھ ہی انہوں نے حماس کو سخت پیغام بھی دیا کہ اگر معاہدے کی پاسداری نہ کی گئی تو اسرائیل کو دوبارہ فوجی کارروائی کی مکمل اجازت دے دی جائے گی۔
سی این این کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی صدر ٹرمپ کا لب و لہجہ غیر معمولی طور پر سخت تھا۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے اب تک 28 میں سے زیادہ تر یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں کیں، جو کہ معاہدے کی روح کے منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ طرزِ عمل ناقابلِ قبول ہے اور امریکہ اسے ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔
اسرائیل کو دوبارہ حملے کی اجازت کا عندیہ
ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے تو وہ اسرائیل کو غزہ میں دوبارہ فوجی مداخلت کی اجازت دینے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ ان کے بقول، "جیسے ہی میں کہوں گا، اسرائیلی فوج دوبارہ غزہ کی گلیوں اور سڑکوں پر ہوگی، اور اگر اسرائیل چاہے تو حماس کو ایسا سبق سکھا سکتا ہے جو وہ کبھی نہ بھولیں۔”
عالمی ردِعمل کی تیاری؟
ٹرمپ کے اس حالیہ بیان سے مشرقِ وسطیٰ کے پہلے سے حساس حالات مزید پیچیدہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے فی الوقت جنگ بندی کو ترجیح دینے کی بات کی، مگر ان کے بیانات میں حملے کی تیاری کا عندیہ واضح نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں خطے کے دیگر ممالک، خاص طور پر عرب دنیا، کی نظریں اس بات پر مرکوز ہوں گی کہ امریکہ اگلا قدم کب اور کیسے اٹھاتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات، جن میں واضح دھمکی اور فوجی کارروائی کی بات کی گئی ہے، امریکی خارجہ پالیسی کے اس جارحانہ پہلو کو نمایاں کرتے ہیں جو طاقت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک بار پھر اپنی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کو طاقت، دھمکی اور دباؤ پر استوار کر رہا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ انہوں نے حماس کے ساتھ معاہدے کو بنیاد بنا کر اسرائیل کو مکمل فوجی اختیارات دینے کی بات کی ہے، جو خطے میں امن کے عمل کو شدید خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف جنگ بندی کو جاری رکھنے کی بات ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف ہر لمحہ حملے کی تیاری کا تاثر دیا جا رہا ہے۔
اس صورتحال میں فلسطینی قیادت، اقوامِ متحدہ اور عرب دنیا کے لیے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حماس پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے تحت کوئی پرامن حل ممکن ہو سکے گا یا ٹرمپ کے سخت لہجے کی گونج ایک اور تباہ کن فوجی کارروائی میں تبدیل ہو جائے گی؟
صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی یہ تازہ جھلک نہ صرف حماس کے لیے پیغام ہے بلکہ خطے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے بھی ایک تنبیہ ہے کہ اب امریکہ کسی بھی وقت کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اس بار، شاید "دو منٹ” کی مہلت سے زیادہ وقت نہ ہو۔
