Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

پاکستان میں تمباکو نوشی خطرناک حد تک بڑھ گئی، ماہرین کا فوری اقدامات پر زور

تمباکو ہر سال 80 لاکھ سے زائد انسانی جانیں لے رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت
پاکستان میں تمباکو نوشی خطرناک حد تک بڑھ گئی، ماہرین کا فوری اقدامات پر زور

اسلام آباد میں منعقدہ دو روزہ مشاورتی اجلاس میں ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی تمباکو نوشی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ تمباکو کی تشہیر، فروخت اور استعمال پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔

یہ اجلاس سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے زیرِ اہتمام ہوا، جس میں ماہرینِ صحت، پالیسی سازوں، میڈیا نمائندوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس کا موضوع تھا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی عالمی تمباکو وبا رپورٹ 2025 اور تمباکو کی تشہیر و سرپرستی کے عالمی طریقۂ کار (TAPS) پر عملدرآمد۔

تمباکو ہر سال 80 لاکھ زندگیاں نگل رہا ہے

سابق نگران وفاقی وزیر اور صدرِ پاکستان کے ترجمان مرتضیٰ سولنگی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی تازہ رپورٹ پوری دنیا کے لیے انتباہ ہے کہ تمباکو ہر سال 80 لاکھ سے زائد انسانی جانیں لے رہا ہے  یہ تعداد ایچ آئی وی، تپِ دق اور ملیریا سے ہونے والی مجموعی اموات سے کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمباکو نوشی صرف صحت کو ہی نہیں بلکہ ملک کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس سے پیداواری صلاحیت کم ہوتی ہے، خاندانوں پر مالی دباؤ بڑھتا ہے، اور قومی بجٹ پر علاج معالجے کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔

مرتضیٰ سولنگی کے مطابق پاکستان میں تمباکو استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جبکہ سالانہ ایک لاکھ 66 ہزار سے زائد اموات تمباکو سے وابستہ بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ تمباکو مصنوعات کی تشہیر پر مکمل پابندی، اور پیکٹس پر مزید نمایاں گرافک ہیلتھ وارننگز لگانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

نوجوانوں میں تمباکو مصنوعات کی کشش بڑھنا خطرناک رجحان

سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے کہا کہ اصل خطرہ اس وقت نوجوان نسل کو درپیش ہے۔ ان کے مطابق رنگین پیکنگ، ایونٹس کی اسپانسرشپ اور سوشل میڈیا پر دلکش اشتہارات نوجوانوں کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ تمباکو نوشی کوئی نقصان دہ عادت نہیں بلکہ ایک "فیشن” ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد ناقص ہے۔ کئی کمپنیاں اب بھی بالواسطہ تشہیر کر رہی ہیں، جو قانون سازی اور آگاہی کے ذریعے ختم کرنا ضروری ہے۔

 سپارک کی رپورٹ

سپارک کے پروگرام منیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ اگرچہ پاکستان نے تمباکو کنٹرول کے میدان میں کچھ پیش رفت کی ہے، مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق وہ ممالک جہاں تمباکو کی تشہیر پر مکمل پابندی لگائی گئی، وہاں خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے رجحان میں نمایاں کمی آئی۔

ان کے مطابق گرافک ہیلتھ وارننگز ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی ہیں جو لوگوں کو تمباکو چھوڑنے کی ترغیب دیتی ہیں اور نوجوانوں کو ابتدا سے ہی اس عادت سے روکتی ہیں۔


میڈیا کا کردار فیصلہ کن ہے معروف صحافی فیصل زاہد ملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا کا بنیادی فرض عوامی فلاح ہے، نہ کہ اشتہاری مفادات۔ ان کے مطابق میڈیا کو تمباکو کمپنیوں کے تجارتی دباؤ سے آزاد ہو کر صحت، سچائی اور دیانت پر مبنی مہمات چلانی چاہییں۔

انہوں نے کہا:

"یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے ہم جیت سکتے ہیں، مگر صرف اسی صورت میں جب حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی، والدین اور نوجوان متحد ہو کر میدان میں اتریں۔”

مشاورتی اجلاس کے نکات

اجلاس میں شرکاء نے تمباکو کے خلاف قومی حکمت عملی کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔
اہم تجاویز میں شامل تھیں:

  • گرافک وارننگز کے حجم میں اضافہ

  • تشہیری مواد پر مکمل پابندی

  • اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تمباکو سے متعلق آگاہی مہمات

  • قانون پر سختی سے عملدرآمد

 صحت اور معیشت دونوں کی جنگ

پاکستان میں تمباکو نوشی کا بڑھتا ہوا رجحان محض ایک صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک معاشی اور سماجی بحران بن چکا ہے۔ سالانہ اموات، علاج کے اخراجات، اور نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی عادت ملک کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔

اگر حکومت نے عالمی معیار کے مطابق سخت پالیسیاں نافذ نہ کیں تو آنے والے برسوں میں تمباکو نوشی ملک کے سب سے بڑے صحت عامہ کے بحرانوں میں سے ایک بن سکتی ہے۔

تمباکو کے خلاف یہ جنگ صرف حکومتی سطح پر نہیں، بلکہ سماج، میڈیا اور والدین کے اجتماعی عزم سے ہی جیتی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں