Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

اسرائیلی کابینہ نے ٹرمپ پلان کے تحت جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی، غزہ پر حملے بدستور جاری

جمعرات کی رات کو بھی اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی میں ایک رہائشی عمارت پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم دو افراد شہید ہوئے جبکہ 40 سے زائد افراد ملبے تلے دب گئے۔
اسرائیلی کابینہ نے ٹرمپ پلان کے تحت جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی، غزہ پر حملے بدستور جاری

یروشلم سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی کابینہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے کے اہم خدوخال کی منظوری دے دی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد دو سال سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے اور حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانا ہے۔

وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مختصر سرکاری بیان میں صرف یرغمالیوں کی رہائی کے پہلو پر زور دیا گیا، تاہم معاہدے کے دیگر متنازع نکات جیسے فوجی انخلا، انسانی امداد کی بحالی اور بارڈر کھولنے — کو بیان سے جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا۔

اس منظوری کو بین الاقوامی سطح پر مشرق وسطیٰ میں امن کی جانب ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے تحت حماس کی جانب سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے تدریجی انخلا، رفح بارڈر کراسنگ کا دوبارہ کھولا جانا، اور امدادی سامان کی ترسیل کی بحالی شامل ہے۔

ایک اعلیٰ حماس عہدیدار نے معاہدے کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ “اگر اسرائیل واقعی امن کے لیے سنجیدہ ہے، تو اس معاہدے کے نفاذ سے خطے میں استحکام ممکن ہے۔” تاہم دوسری جانب اسرائیلی فضائی حملے بدستور جاری ہیں، جن کے باعث غزہ میں مزید ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق جمعرات کی رات کو بھی اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی میں ایک رہائشی عمارت پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم دو افراد شہید ہوئے جبکہ 40 سے زائد افراد ملبے تلے دب گئے۔

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر جنگ بندی مذاکرات کو متاثر کرنے کے لیے حملے جاری رکھے ہوئے ہے، تاکہ عالمی دباؤ کے باوجود زمینی برتری برقرار رکھی جا سکے۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ ان کی کارروائیاں صرف دشمن کے ٹھکانوں اور عسکری اہداف تک محدود ہیں، اور ان حملوں کا مقصد اپنے فوجیوں کو لاحق خطرات کو ختم کرنا ہے۔

یاد رہے کہ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اُس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس نے اسرائیل پر ایک اچانک حملہ کیا، جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1,200 افراد ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر وسیع پیمانے پر فضائی اور زمینی حملے شروع کیے۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 67,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد 170,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ تباہی کی یہ لہر اب بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔

اگرچہ اسرائیلی کابینہ کی جانب سے ٹرمپ پلان کی منظوری ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے، مگر زمینی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اسرائیلی حملوں کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کا فقدان بدستور موجود ہے۔

یہ معاہدہ بظاہر امن کی سمت ایک قدم ہے، مگر اس کے عملی نفاذ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں — خاص طور پر اسرائیلی داخلی سیاست، فوجی دباؤ اور حماس کی شرائط۔ اگر اسرائیل واقعی جنگ بندی پر مخلصی دکھاتا ہے تو یہ پیش رفت خطے میں مستقل امن کی بنیاد بن سکتی ہے، بصورتِ دیگر یہ صرف ایک وقتی سیاسی حربہ ثابت ہوگا۔

غزہ میں مسلسل بمباری اور بڑھتی انسانی ہلاکتیں عالمی برادری کے لیے ایک اخلاقی چیلنج بن چکی ہیں۔ اب دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف بیانات تک محدود رہے گی یا واقعی امن کے قیام کے لیے عملی کردار ادا کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں