واشنگٹن : روس یوکرین جنگ کے تناظر میں ایک انتہائی اہم اور نازک موڑ اُس وقت سامنے آیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی سے ملاقات کے دوران انہیں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی شرائط ماننے پر زور دیا۔ برطانوی جریدے ’فنانشل ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ نے واضح الفاظ میں زیلینسکی کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے روس کی شرائط کو تسلیم نہ کیا تو پیوٹن یوکرین کو مکمل تباہی سے دوچار کر سکتا ہے۔
مشرقی یوکرین پر تنازع، ٹرمپ کا دوٹوک مؤقف
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کے دوران یوکرینی صدر سے کہا کہ مشرقی ڈونباس کا علاقہ روس کے حوالے کرنا ہی واحد راستہ ہے جس سے اس خونریز جنگ کو روکا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کے بقول، یوکرین اگر اب بھی مزاحمت پر قائم رہا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جنگ بندی کے لیے مذاکراتی راہ ہموار
فنانشل ٹائمز کے مطابق، زیلینسکی نے ٹرمپ کے سامنے مؤقف پیش کیا کہ یوکرین مکمل پسپائی اختیار نہیں کر سکتا، تاہم موجودہ فوجی پوزیشن پر جنگ بندی ممکن ہے۔ کئی گھنٹوں کی گفت و شنید کے بعد دونوں رہنماؤں میں اس نکتے پر اتفاق ہوا کہ فی الحال جنگ کو روکا جائے اور فریقین خود کو فاتح قرار دے کر معاملہ تاریخ کے سپرد کر دیں۔
وقت آ گیا ہے کہ خون خرابہ بند ہو
وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس اہم ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ،
“اب وقت آ گیا ہے کہ خون خرابہ ختم ہو، دونوں ممالک خود کو فاتح سمجھیں اور باقی فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑ دیں۔”
یہ ملاقات دو روز قبل انجام پائی، جس میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔ اس ملاقات کو مستقبل کے ممکنہ سیاسی حل کے لیے ابتدائی مگر اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرینی صدر پر اس قدر براہ راست دباؤ، عالمی سفارتی منظرنامے میں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مشرقی ڈونباس کا علاقہ روس کو دینے کی تجویز، یوکرین کے لیے صرف ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ خودمختاری اور قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ٹرمپ کا کہنا کہ “خود کو فاتح سمجھو اور فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دو” سیاسی طور پر قابلِ غور لیکن خطرناک حد تک سادہ تجزیہ ہے۔
یہ رویہ یوکرین کی آزادی کی جدوجہد کو کمزور کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے، جبکہ روس کو مزید حوصلہ مل سکتا ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ اگرچہ جنگ بندی کا ہر راستہ قابلِ تحسین ہے، لیکن اس کی بنیاد کمزوری، دھمکی یا غیر متوازن شرائط پر رکھی جائے تو وہ پائیدار نہیں رہتی۔
ملاقات کا یہ پہلو قابلِ تعریف ہے کہ بات چیت کے ذریعے ایک ممکنہ وقتی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا، تاہم طویل المدتی حل کے لیے تمام فریقین کو مساوی حیثیت کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، یہ “جنگ بندی” بھی محض ایک وقتی وقفہ ثابت ہو سکتی ہے، نہ کہ مسئلے کا پائیدار حل۔
