غزہ میں دو برس سے جاری تباہ کن جنگ کے بعد بالآخر ایک بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی معاہدے کے ابتدائی مرحلے کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کردیا ہے۔ یہ اقدام دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد سازی کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے، جس سے خطے میں امن کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس معاہدے کے تحت اسرائیل اپنی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جو طویل عرصے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ ماہرین کے مطابق اس معاہدے کو نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کم کرنے کی سمت ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کے وقت جنوبی غزہ کے نصر اسپتال کے باہر غیر معمولی مناظر دیکھنے میں آئے۔ وہاں حماس کے نقاب پوش ارکان حفاظتی انتظامات میں مصروف تھے جبکہ ریڈ کراس کی ٹیمیں یرغمالیوں کے منتقلی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے موجود رہیں۔ اس موقع پر بین الاقوامی مبصرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے تاکہ اس عمل کی تصدیق کر سکیں۔
دوسری جانب اسرائیل میں بھی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ فوجی کیمپ رئیم کے باہر اور تل ابیب کے “یرغمالی چوک” میں ہزاروں شہری اپنے ہاتھوں میں اسرائیلی جھنڈے اور یرغمالیوں کی تصاویر اٹھائے کھڑے رہے۔ کئی خاندان اپنے پیاروں کی رہائی کی امید میں ایک دوسرے سے لپٹ کر رو پڑے۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران یہ جنگ خطے کی سب سے طویل اور خونی جھڑپوں میں شمار کی جا رہی ہے، جس میں نہ صرف غزہ اور اسرائیل بلکہ ایران، یمن اور لبنان جیسے ممالک بھی بالواسطہ طور پر شامل ہو گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس طویل تنازع نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی توازن کو بڑی حد تک بدل دیا، جہاں مختلف قوتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے سرگرم رہیں۔
اسی تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روانگی سے قبل ایک بیان میں کہا کہ “اب جنگ ختم ہو چکی ہے، اور ہمیں امید ہے کہ خطے میں استحکام اور معمول کی زندگی بحال ہوگی۔” انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ پیشرفت ایک “نئے امن دور” کی بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ آج اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) سے خطاب کریں گے، جہاں ان کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ امریکی صدر کے اس دورے کو عالمی میڈیا “جنگ کے بعد امن کے اعلان” کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
یہ پیشرفت بلاشبہ ایک امید کی کرن ہے مگر اسے مکمل امن کی ضمانت نہیں کہا جا سکتا۔ غزہ کی تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی، ہزاروں بے گھر افراد کی واپسی، اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے چیلنجز ابھی باقی ہیں۔ دوسری جانب، اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی رہائی اگرچہ مثبت قدم ہے لیکن اصل امتحان پائیدار امن اور باہمی اعتماد کے قیام میں ہے۔
اگر دونوں فریق اپنے وعدوں پر قائم رہے تو یہ معاہدہ نہ صرف ایک نئے سیاسی باب کی بنیاد رکھے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں برسوں سے جاری تشدد کے دائرے کو توڑنے کی سمت ایک تاریخی پیشرفت ثابت ہو سکتا ہے۔
