Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

ابھی تو گھر کے ڈھیروں کام باقی ہیں؛ عشرت فاطمہ نے انتقال کی افواہوں کو ہنستے ہوئے مسترد کر دیا

صرف صحت کے ساتھ لمبی زندگی نہیں بلکہ وقار اور عزت کے ساتھ جینا ہی اصل کامیابی ہے،عشرت فاطمہ
ابھی تو گھر کے ڈھیروں کام باقی ہیں؛ عشرت فاطمہ نے انتقال کی افواہوں کو ہنستے ہوئے مسترد کر دیا

پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور کی باوقار آواز، پختہ اُردو کی پہچان اور ہزاروں دلوں کی دھڑکن، عشرت فاطمہ کے انتقال کی جھوٹی خبریں گزشتہ روز سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئیں، جنہوں نے مداحوں اور قریبی رفقاء کے دلوں میں لمحاتی سناٹا طاری کر دیا۔ مگر عشرت فاطمہ نے ان بے بنیاد افواہوں کا نہایت باوقار، ذہین اور پر اعتماد انداز میں جواب دے کر سب کے دل جیت لیے۔

سوشل میڈیا پر اچانک نمودار ہونے والی افواہوں نے محض اُن کی زندگی پر سوال اٹھانے کی جسارت ہی نہیں کی، بلکہ اُن کی دہائیوں پر محیط خدمات کو لمحاتی طور پر ایک سوالیہ نشان میں بدل دیا۔ تاہم، عشرت فاطمہ نے ایک مختصر مگر بامعنی پیغام کے ذریعے ان سب قیاس آرائیوں کا دروازہ بند کر دیا۔

 ’’میں ابھی تو ریڈیو سے آئی ہوں، گھر کے کام بھی باقی ہیں‘‘

معروف میزبان توثیق حیدر کے ساتھ ایک ویڈیو کال میں گفتگو کرتے ہوئے عشرت فاطمہ نے واضح انداز میں کہا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں اور روزمرہ کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ دیر قبل وہ ایک ریڈیو پروگرام مکمل کر کے آئی ہیں اور اب اُن کے سامنے گھر کے کئی کام منتظر ہیں، جن میں لحاف دھونا بھی شامل ہے۔

ان کا ہلکا پھلکا لہجہ، پرسکون انداز اور زندہ دل جملے سوشل میڈیا پر تروتازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے۔ عشرت فاطمہ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ صرف صحت کے ساتھ لمبی زندگی نہیں بلکہ وقار اور عزت کے ساتھ جینا ہی اصل کامیابی ہے، اور لوگوں سے ایسی زندگی کے لیے دعا کی درخواست کی۔

خبرنامے سے قلوب تک کا سفر

عشرت فاطمہ کا شمار ان چند نیوز کاسٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے خبر کو محض الفاظ نہیں، ایک احساس اور اعتماد کے ساتھ سنایا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا، جہاں انہوں نے پروگرام "کھیل اور کھلاڑی” کی میزبانی کی۔ آواز میں ٹھہراؤ، تلفظ میں صفائی اور لہجے میں شائستگی نے انہیں سامعین کے دلوں میں گھر بنانے میں مدد دی۔

بعد ازاں، پی ٹی وی کا نو بجے کا خبرنامہ اُن کی پہچان بن گیا۔ ہر شب اُن کی پراثر آواز، پردے کے پیچھے ایک ایسی شخصیت کی نمائندگی کرتی تھی جو عوام کے دلوں میں ایک قریبی فرد کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔ ان کا اندازِ بیاں، زبان پر قدرت اور باوقار لہجہ انہیں دیگر نیوز کاسٹرز سے ممتاز کرتا رہا۔

موسم سے خبر تک، ایک اتفاق جو تاریخ بن گیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ عشرت فاطمہ نے ابتدا میں موسم کی خبروں کے لیے تیاری کی تھی۔ مگر تقدیر نے ایک اور دروازہ کھولا، جب انہیں نیوز ریڈنگ کی بھی آزمائش کا موقع ملا۔ وہ لمحہ اُن کے کیریئر کا فیصلہ کن موڑ بن گیا اور وہ پاکستان کی تاریخ کی اُن چند خواتین میں شامل ہو گئیں جنہوں نے میڈیا میں وقار، سنجیدگی اور اعتماد کی علامت بن کر نام کمایا۔

 افواہوں کے ہجوم میں وقار کی روشنی

عشرت فاطمہ کے انتقال کی جھوٹی خبریں دراصل ہمارے معاشرتی رویوں پر ایک خاموش سوال بھی اٹھاتی ہیں۔ کیا ہم سوشل میڈیا پر اتنے غیر سنجیدہ ہو چکے ہیں کہ کسی کی زندگی یا موت پر بھی تصدیق کے بغیر خبریں پھیلانا معمول بن چکا ہے؟ ایک لمحے کے لیے بھی ہم یہ سوچنے سے قاصر ہو جاتے ہیں کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ رویے کسی کی شخصیت، ان کے خاندان، دوستوں اور لاکھوں مداحوں پر کیا اثر ڈال سکتے ہیں۔

عشرت فاطمہ کا ردِعمل نہ صرف باوقار تھا بلکہ اس میں ایک سبق بھی تھا   وہ اب بھی اتنی ہی متحرک، مثبت اور خوش مزاج ہیں جتنی اپنے کیریئر کے عروج پر تھیں۔ ’’ابھی تو گھر کے ڈھیروں کام پڑے ہیں‘‘ جیسے جملے میں چھپا زندگی سے جڑا ہوا سادہ مزاح، عامیانہ نہیں بلکہ اُن کے وقار کا عکاس ہے۔ انہوں نے نا صرف اپنی زندگی کی جھوٹی خبر کی تردید کی، بلکہ اپنے مداحوں کے دلوں میں ایک بار پھر جگہ بنالی — اس بار ایک جیتی جاگتی مثال کے طور پر کہ حقیقی شخصیت افواہوں سے کہیں بلند ہوتی ہے۔

یہ واقعہ صرف عشرت فاطمہ کی زندگی کا ایک باب نہیں، بلکہ میڈیا صارفین کے لیے بھی ایک آئینہ ہے کہ اطلاعات کو بغیر تحقیق آگے بڑھانے سے پہلے ایک لمحہ توقف ضروری ہے۔

عشرت فاطمہ محض ایک نیوز کاسٹر نہیں، بلکہ ایک نسل کی یادداشت، ایک طرزِ گفتار، اور اردو زبان کی خوبصورتی کی علامت ہیں۔ ان کے ردعمل نے ثابت کیا کہ شخصیت کا قد خبروں سے نہیں، کردار سے ماپا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ وہ صحت، عزت اور روشنی کے ساتھ اپنی زندگی کے سفر کو مزید خوشگوار انداز میں جاری رکھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں