لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ سرکلر نے ضلع بھر کی تمام 182 یونین کونسلز کے سیکرٹریز کو مخاطب کرتے ہوئے واضح ہدایات دی ہیں کہ ایسی شادیوں کی کوئی بھی دستاویز رجسٹرڈ نہیں کی جائے گی، اور اس پر فوری عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
یہ سرکلر، جو ضلعی کچہری سے جاری کیا گیا، ایک ایسے سماجی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے جو طویل عرصے سے زیر بحث رہا ہے۔ سرکلر میں بیان کیا گیا ہے کہ جو لڑکیاں یا جوڑے گھروں سے فرار ہو کر عدالتوں میں کورٹ میرج یا لو میریج کا سہارا لیتے ہیں، ان کے نکاح ناموں کو قانونی تحفظ دینے سے انکار کیا جائے گا۔یہ پابندی نہ صرف مقامی رہائشیوں پر عائدہوگی بلکہ دیگر شہروں یا ضلعوں سے آنے والے افراد پر بھی سختی سے نافذ ہوگی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد خاندانی اقدار کی حفاظت، جعلی دستاویزات کی روک تھام اور ایسے واقعات کو روکنا ہے جو بعد میں عدالتوں میں طویل مقدمات کا باعث بنتے ہیں۔
سرکلر کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ ضلع راولپنڈی میں صرف اس سال کے پہلے نصف حصے میں، یعنی یکم جنوری سے 30 ستمبر تک، 1594 ایسی کورٹ یا لو میریجز ریکارڈ پر آئیں، جو ماضی دو سالوں کے مقابلے میں ایک الارمنگ رجحان کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف سماجی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ خاندانی تنازعات، جعلی ایڈریسز اور فرضی گواہوں کے استعمال جیسے مسائل کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔رپورٹس کے مطابق، عدالتوں میں ہونے والے ان نکاحوں میں اکثر جعلی رہائشی پتہ، بے بنیاد مقامی رجسٹریشن اور غیر معتبر گواہوں کا سہارا لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے متعلقہ ملازمین کو راولپنڈی سے باہر دور افتادہ اضلاع کی عدالتوں میں بار بار پیش ہونا پڑتا ہے۔ یہ نہ صرف انتظامی وسائل ضائع کرتا ہے بلکہ متاثرین کے لیے بھی نفسیاتی اور مالی بوجھ کا باعث بنتا ہے۔
اس نئی پالیسی کے تحت، یونین کونسلز کے سیکرٹریز کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ایسی کسی بھی درخواست کو مسترد کریں جو مشکوک حالات میں پیش کی جائے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی جوڑا دوسرے شہر یا ضلع سے آ کر کچہری میں شادی کا اعلان کرے، تو اس کی رجسٹریشن سے انکار کیا جائے گا، چاہے وہ رضامندی کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرے۔یہ ہدایت نام صرف مقامی سطح پر نہیں بلکہ پورے ضلع کی سطح پر نافذ العمل ہوگی، جس سے متوقع ہے کہ ایسے واقعات میں نمایاں کمی آئے گی۔
تاہم، سرکلر کی سب سے سخت شق خلاف ورزی سے متعلق ہے، جو اس فیصلے کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر کوئی نکاح خواں یا رجسٹرار ایسی شادی کی دستاویزات تیار کرنے کی کوشش کرے گا، تو اس کا لائسنس فوری طور پر منسوخ کر دیا جائے گا، اس کے خلاف فوجداری مقدمہ درج ہوگا اور گرفتاری کا حکم جاری کیا جائے گا۔ اسی طرح، یونین کونسل کے سیکرٹری کی صورت میں، خلاف ورزی پر ملازمت سے برطرفی کے علاوہ قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ تنبیہات حکام کی طرف سے واضح پیغام دیتی ہیں کہ اس پابندی کو ہلکا سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں، اور ہر سطح پر نگرانی کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ اقدام ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سماجی استحکام کو فروغ دینے کی ایک کوشش ہے، جو روایتی خاندانی ڈھانچے کو جدید چیلنجز سے نبرد آزما کرنے کی کوشش کا حصہ لگتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی شادیاں اکثر جذباتی فیصلوں پر مبنی ہوتی ہیں، جو بعد میں خاندانی جھگڑوں، قانونی لڑائیوں اور معاشرتی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ ضلعی افسران نے بتایا کہ یہ سرکلر جاری ہونے کے فوراً بعد عمل میں لایا گیا ہے، اور متعلقہ یونین کونسلز کو تربیت اور نگرانی کے لیے اضافی وسائل فراہم کیے جائیں گے تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔اس خبر کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ راولپنڈی جیسے شہر میں، جہاں روایتی اقدار اور جدید رجحانات کا امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے، انتظامیہ نے ایک متوازن راستہ اختیار کیا ہے۔یہ پابندی نہ صرف جعلی نکاحوں کو روکے گی بلکہ خاندانوں کو مشورہ دینے اور رضامندی حاصل کرنے کی طرف راغب بھی کرے گی، جو طویل مدتی استحکام کا ضامن بن سکتی ہے۔
تجزیہ: خاندانی روایات بمقابلہ انفرادی آزادی – ایک پیچیدہ توازنیہ سرکلر راولپنڈی کی انتظامیہ کی ایک قابلِ غور کوشش ہے جو سماجی استحکام اور خاندانی ہم آہنگی کی بحالی کا دعویٰ کرتی ہے، مگر یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ کیا یہ اقدام انفرادی حقوق اور محبت کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کو غیر ضروری رکاوٹ تو نہیں بنا رہا؟ ایک طرف تو اعداد و شمار خوفناک اضافہ دکھاتے ہیں، جو جعلی دستاویزات اور قانونی پیچیدگیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، جو بالآخر متاثرین اور ریاست دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔دوسری طرف، یہ پابندی روایتی ولی اور خاندان کی رضامندی کو مرکزی حیثیت دے کر، شرعی اور سماجی اصولوں کی پاسداری کا پیغام دیتی ہے، جو پاکستان جیسے معاشرے میں خاندانی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔
تاہم، تنقید کاروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسے اقدامات جذباتی اور غیر قانونی فرار کو مزید پوشیدہ بنا سکتے ہیں، جس سے مسائل کی جڑ – جیسے تعلیم کی کمی، معاشی دباؤ یا صنفی عدم مساوات – حل ہونے کے بجائے دب جائیں گے۔ بہتر حل یہ ہو سکتا ہے کہ رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ کاؤنسلنگ مراکز قائم کیے جائیں، جہاں جوڑے خاندانوں سے بات چیت کی ترغیب پا سکیں، اور قانونی تحفظ کو یقینی بنایا جائے بغیر روایات کو نظر انداز کیے۔ مجموعی طور پر، یہ قدم مثبت ہے اگر اسے وسیع تر سماجی اصلاحات کے ساتھ جوڑا جائے، ورنہ یہ صرف عارضی پالیسی بن کر رہ جائے گا، جو اصل مسائل کو چھپاتا رہے گا۔