پاکستان کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے لیے اپنی حتمی ٹیم فائنل کرلی ہے، جہاں دیرینہ انتظار کے بعد 38 سالہ لیفٹ آرم اسپنر آصف آفریدی کو بالآخر ٹیسٹ کیپ ملنے جارہی ہے۔ یہ ان کے کیریئر کا ایک یادگار لمحہ ہوگا، جس کا خواب وہ برسوں سے دیکھ رہے تھے۔
قومی ٹیم کی مینجمنٹ نے ابتدائی میٹنگز کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ لاہور میں کھیلے جانے والے اس ٹیسٹ میں سات بلے باز، دو فاسٹ بولرز اور دو اسپنرز میدان میں اتریں گے۔ اس متوازن کمبی نیشن کا مقصد جنوبی افریقا کے مضبوط بیٹنگ آرڈر کے خلاف دباؤ برقرار رکھنا اور کنڈیشنز سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔
ذرائع کے مطابق آف اسپنر ساجد خان وائرل بخار میں مبتلا ہونے کے باعث ٹیم میں شامل نہیں ہوسکے۔ ان کی عدم دستیابی کے بعد انتخابی کمیٹی نے آصف آفریدی کو موقع دینے کا فیصلہ کیا، جو اپنی شاندار کارکردگی کے باعث حالیہ دنوں میں سلیکٹرز کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔
عبوری ہیڈ کوچ اظہر محمود نے بھی آصف آفریدی کی بولنگ کو سراہتے ہوئے انہیں ٹیم میں شامل کرنے کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ آصف آفریدی کے تجربے اور ان کے اسپن کے تنوع سے پاکستان کو گھریلو کنڈیشنز میں خاص فائدہ حاصل ہوگا۔ اظہر محمود کے مطابق آفریدی کی لائن اور لینتھ پر گرفت، اور لمبے اسپیلز میں تسلسل سے بولنگ کرنے کی صلاحیت، انہیں پلیئنگ الیون کے لیے موزوں انتخاب بناتی ہے۔
پہلے ٹیسٹ کے لیے پاکستان کی ٹیم میں امام الحق، عبداللہ شفیق، شان مسعود (کپتان)، بابر اعظم، سعود شکیل، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، سلمان علی آغا، شاہین شاہ آفریدی، حسن علی، نعمان علی اور آصف آفریدی شامل ہوں گے۔ یہ کمبی نیشن بیٹنگ میں گہرائی اور بولنگ میں ورائٹی فراہم کرتا ہے۔
اس تاریخی میچ کا آغاز کل صبح 10 بجے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہوگا، جہاں شائقین کرکٹ ایک سنسنی خیز مقابلے کے منتظر ہیں۔ ٹیم انتظامیہ کا ماننا ہے کہ نوجوان اور تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل یہ اسکواڈ نہ صرف جنوبی افریقا کے خلاف بھرپور مقابلہ کرے گا بلکہ قومی ٹیم کے اعتماد میں بھی اضافہ کرے گا۔
پاکستان کرکٹ کے لیے آصف آفریدی کا ڈیبیو ایک امید افزا لمحہ ہے۔ 38 برس کی عمر میں ٹیسٹ کیپ حاصل کرنا ثابت کرتا ہے کہ محنت اور لگن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ان کی شمولیت نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ کارکردگی اور استقامت ہمیشہ رنگ لاتی ہے۔
دوسری جانب، ٹیم کی مجموعی حکمتِ عملی متوازن دکھائی دیتی ہے۔ دو اسپنرز اور دو فاسٹ بولرز کے کمبی نیشن سے میدان میں ایک مضبوط بولنگ یونٹ اترے گا، جبکہ بیٹنگ لائن بھی مستحکم نظر آتی ہے۔ اگر پاکستان اپنے سینیئر بیٹرز پر انحصار کے بجائے اجتماعی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہا تو یہ سیریز قومی ٹیم کے لیے یادگار ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ پہلا ٹیسٹ نہ صرف آصف آفریدی کے کیریئر کا نیا باب ہے بلکہ پاکستان کرکٹ کے لیے بھی ایک نیا عزم، ایک نئی توانائی اور ایک نیا حوصلہ ثابت ہوسکتا ہے۔
