Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

رشتے… جو نبھتے ہیں، جیتے نہیں

ایک وقت تھا جب رشتوں میں روح ہوتی تھی، آج وہ صرف جسموں اور ذمہ داریوں کا بوجھ بن گئے ہیں
جو نبھتے ہیں، جیتے نہیں

زیرِ لب – قسط چہارم

تحریر: غلام مرتضی

رشتے… عجیب سا لفظ ہے۔ کبھی نرم، کبھی نوکیلا۔ کبھی سینے میں اطمینان بھرتا ہے، تو کبھی سانس روک دیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب رشتوں میں روح ہوتی تھی، آج وہ صرف جسموں اور ذمہ داریوں کا بوجھ بن گئے ہیں۔ ہم رشتے جیتے نہیں، بس نبھاتے ہیں  جیسے کوئی فرض ہو، جیسے کوئی قرض ہو، جیسے کوئی ہدایت ہو جو پوری کیے بغیر ہم گناہگار کہلائیں گے۔

ہم روز رابطے کرتے ہیں، مگر ربط نہیں بنتا۔ کالز، میسیجز، ویڈیوز، لائکس، تبصرے  سب کچھ ہے، مگر ایک سچّا تعلق کہیں گم ہو چکا ہے۔ رشتوں میں وقت تو ہے، دل نہیں۔ مصروفیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب کوئی رشتہ ہمارے دن کی ترجیح نہیں رہا، بس ایک “چیز” ہے جسے وقتاً فوقتاً نبھانا ہے۔ پہلے لوگ خاموشی میں بھی محسوس کر لیتے تھے کہ دوسرا کیسا ہے۔ اب جتنی بھی آواز ہو، وہ اندر کی حالت نہیں سمجھ پاتی۔

محبت اب ثبوت مانگتی ہے۔ “کب کال کی؟”، “کب وقت دیا؟”، “کب کہا کہ تم اہم ہو؟” — رشتے کسی عدالت کی طرح سوال کرتے ہیں، اور اگر جواب دیر سے ملے، تو فیصلہ ہو جاتا ہے کہ "بدل گئے ہو”۔ احساس کے رشتے اب “ریپلائی” سے ناپے جاتے ہیں۔ کبھی ہم آنکھوں سے سمجھتے تھے، اب وضاحتوں سے بھی کوئی مطمئن نہیں ہوتا۔ گویا محبت اب ایک معاہدہ ہے — جس میں جیتنے کے لیے وقت، توجہ، تعریف اور موجودگی کی رسید دینی پڑتی ہے۔

کچھ رشتے صرف اس لیے چل رہے ہیں کیونکہ ہم انہیں چھوڑنے سے ڈرتے ہیں۔ نہ وہ دل سے جُڑے ہیں، نہ روح سے، بس کسی سماجی مجبوری، خاندانی توقع یا معاشرتی ڈر کی بنیاد پر قائم ہیں۔ ایسے رشتے انسان کو اندر سے کھا جاتے ہیں، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم خود کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ یہی زندگی ہے۔ ہم اپنی اصل ذات کو مار کر، خود کو رشتوں میں فنا کر چکے ہیں۔ اور یہ فنا، خاموشی سے روز ہوتی ہے — ایک نظرانداز، ایک چپ، ایک وقتی بات، ایک نظر… سب کچھ آہستہ آہستہ روح سے لے لیتے ہیں۔

ہم ان رشتوں میں خالی پن لیے جیتے ہیں — باتیں کرتے ہیں، مگر دل سے نہیں۔ وقت گزارتے ہیں، مگر قریب نہیں ہوتے۔ ایک گھر میں رہتے ہیں، مگر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ کیا یہ رشتہ ہے؟ یا ایک بندش، جس میں دو انسان صرف زندہ ہیں، جُڑے نہیں۔

پہلے رشتے سانس دیتے تھے، اب بوجھ بن گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی خاموشی سنتے تھے، اب شور میں بھی اندھے بنے ہوئے ہیں۔ کسی کے چہرے پر اُداسی ہو، تو ہم صرف اتنا پوچھتے ہیں: "سب ٹھیک ہے نا؟” اور جواب کا انتظار بھی نہیں کرتے۔ ہمیں صرف رسمی تسلیاں آتی ہیں  اصل میں کسی کے اندر اترنے کی فرصت اور خواہش ہی نہیں بچی۔

اب محبت ایک ثبوت مانگتی ہے، اور رشتہ ایک مظاہرہ۔ اگر تم روتے نہیں، تو سمجھا جاتا ہے تمہیں فرق نہیں پڑتا۔ اگر تم مانگتے نہیں، تو یہ خیال ہوتا ہے کہ تمہیں ضرورت نہیں۔ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ بعض لوگ خاموشی میں بھی بہت کچھ سہہ رہے ہوتے ہیں   بغیر کہے، بغیر سنائے۔

رشتے اب “اظہار” کے محتاج ہو گئے ہیں۔ وہ تعلقات جو صرف ایک لمس، ایک مسکراہٹ، یا ایک خاموش ساتھ سے جُڑتے تھے، اب لفظوں، فون کالز اور سوشل میڈیا پوسٹس کے مرہون منت ہو گئے ہیں۔ اگر تم موجود ہو، تو مانا جاتا ہے کہ تم “محبت” میں ہو، اگر چند دن غائب ہو جاؤ، تو رشتہ مشکوک ہو جاتا ہے۔ کیا یہی محبت ہے؟ کیا یہی رشتہ ہے؟

کبھی کبھی، رشتہ چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے — خاص طور پر وہ رشتے جو تم سے تمہارا "تم” چھین لیں۔ جو تمہیں روز اندر سے توڑیں، تمہاری شناخت کھا جائیں، تمہارے سکون کی قیمت بن جائیں۔ ایسے تعلق کو برقرار رکھنا وفاداری نہیں، ظلم ہے — خود پر، اپنی روح پر، اپنے وجود پر۔

اور کبھی کبھی… خاموشی سے نبھائے گئے رشتے تھک جاتے ہیں۔ وہ شخص جو ہمیشہ پہل کرتا تھا، جس نے ہمیشہ وقت دیا، سمجھا، برداشت کیا — وہ آخرکار چپ ہو جاتا ہے۔ اور جب وہ چپ ہو جائے، تو رشتہ مردہ ہو جاتا ہے، چاہے کتنا بھی دکھایا جائے کہ “سب ٹھیک ہے”۔

رشتے… وہی خوبصورت ہوتے ہیں جو دل سے جُڑے ہوں، رسموں سے نہیں۔ اگر تم کسی کے ساتھ صرف اس لیے ہو کہ “چاہیے”، “ضروری ہے”، یا “لوگ کیا کہیں گے” — تو تم خود کو دھوکہ دے رہے ہو۔ رشتہ وہی جو سانس دے، سکون دے، تمہیں تم بننے دے — نہ کہ تمہیں جینے سے روک دے۔

"زیرِ لب” کی یہ قسط اُن تمام دلوں کے لیے ہے جو رشتوں کی خوشبو میں جینے کے بجائے، ان کی مجبوری میں روز مرتے ہیں۔ یہ اُن محبتوں کی یاد ہے جو صرف اس لیے زندہ ہیں کیونکہ ان میں کبھی سچائی تھی، چاہے اب صرف خالی خول باقی ہو۔ اور یہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جنہوں نے سب کچھ دے دیا، مگر کبھی سنا نہیں: “میں تمہارے بغیر ادھورا ہوں۔”

یاد رکھیں، ہر رشتہ نبھانا ضروری نہیں — بعض اوقات اپنے آپ کو بچانا اس سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں