اسلام آباد ؛ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر (نشانِ امتیاز، ملٹری ہلالِ جرات) نے اپنی تقریر میں ملک کے دفاع، عالمی تعلقات، اور داخلی و خارجی خطرات کے حوالے سے جامع مؤقف پیش کیا۔ انہوں نے تازہ ترین عسکری کاروائیوں کی کامیابیوں، ملکی یکجہتی کی اہمیت اور خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کو اجاگر کیا، ساتھ ہی پڑوسی ملکوں کی طرف سے مبینہ جارحیت اور ریاستی سرپرستی سے منسلک خطرات پر سخت انتباہ بھی جاری کیا۔
تقریب کا آغاز سنجیدہ تعظیم اور فوجی روایات کے عین مطابق ہوا، جس میں مختلف ممالک بشمول بنگلہ دیش، عراق، مالی، مالدیپ، نائیجیریا، نیپال، فلسطین، قطر، سری لنکا اور یمن کے کیڈٹس کی شمولیت نمایاں رہی۔ آرمی چیف نے ان کی کامیاب تکمیلِ تربیت پر مبارکباد دی اور اکادمی کی قدر و منزلت پر زور دیتے ہوئے اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں ادارہ قرار دیا۔
فیلڈ مارشل نے کہا کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مسلح افواج نے وطن کے اندرونی و بیرونی دفاع میں کبھی کوتاہی اختیار نہیں کی، اور حالیہ آپریشنز میں افواج کی پیشہ ورانہ مہارت نے قوم کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا۔ انہوں نے آپریشن معرکۂ حق/بنیانِ مرصوص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج نے دشمن کی منصوبہ بندی کو ناکام بنا کر عزم و ہمت کا عملی ثبوت دیا ہے۔
خصوصی طور پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ میں رافیل طیاروں سمیت متعدد دشمنی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا اور یہاں تک کہ اعلیٰ دفاعی نظاموں کو بھی متاثر کیا گیا، جس کے ذریعے پاکستان نے ملٹی ڈومین وار فیئر میں اپنی صلاحیتیں ظاہر کی ہیں۔ ان الفاظ کے ذریعے آرمی چیف نے قوم کو یہ یقین دلایا کہ وہ اس مقدس سرزمیں کا ایک انچ بھی دشمن کو تسلیم نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے پاک فوج کی روایت، تربیت اور نظم و ضبط کو نوجوانوں کے لیے باعثِ فخر قرار دیا اور شہداء کی قربانیوں کو ناقابلِ فراموش قرار دیتے ہوئے ان کے خاندانوں کے ساتھ ملک و قوم کا شکر ادا کیا۔ مسلح افواج کے جوانوں، بیوروکریٹس، علما، سائنسدانوں، میڈیا اور تعلیمی شعبے کے افراد کو بھی ان کی خدمات پر سراہا گیا اور قومی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ آرمی چیف نے خبردار کیا کہ دشمن عناصر عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازشوں میں مصروف ہیں، اس لیے اتحاد کو مضبوط رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان کے دفاعی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کریڈیبل ڈیٹرنس اور دائمی تیاری ہماری بنیادی پالیسی ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں فیلڈ میں حاصل تجربات نے فوج کو اتنی صلاحیت بخشی ہے کہ روایتی محاذ پر بھی دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے۔ اگر دوبارہ جارحیت کی کوشش کی جاتی ہے تو پاکستان توقعات سے کہیں زیادہ سخت ردعمل دے گا اور اس کے نتیجے میں دشمن کی جغرافیائی و اقتصادی حیثیت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
علاقائی کشیدگی سے متعلق انہوں نے بھارتی قیادت کو سختی سے خبردار کیا کہ نیوکلیئر ماحول میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ بنیادی اختلافات کو بین الاقوامی اصولوں، مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر حل کیا جانا چاہیے، کیونکہ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کے سنگین اور دیرپا نتائج پورے خطے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ کسی بھی کشیدگی کی مکمل ذمہ داری اس فریق پر عائد ہوگی جو جارحیت میں مبتلا ہوگا۔
فیلڈ مارشل نے بھارتی حکومتی سمت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے بعض واقعات میں جلد بازی میں الزام تراشی کی اور شواہد کے سلسلے میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا، جسے انہوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کو جامۂ عمل پہنانے کی کوشش قرار دیا۔ وہ اس رائے کے ہیں کہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے الزامات قابلِ تشویش ہیں اور اس سے خطے میں بداعتمادی جنم لیتی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات اور شراکت داریوں کے حوالے سے آرمی چیف نے بتایا کہ پاکستان خطّے میں بطور ایک نیٹ ریجنل سٹیبلائزر ابھرا ہے؛ مسلم دنیا اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں متحرک پیش رفت ہوئی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدے کو انہوں نے باہمی بھائی چارے اور خطے کے امن کی ضمانت قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اپنی فوجی خدمات حرمینِ شریفین کی حفاظت کے لیے پیش کر کے فخر محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ تاریخی اور اسٹریٹجک تعاون کو خاص اہمیت دی گئی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی تجدید کو خوش آئند قرار دیا گیا۔
پا کستان کی سفارتی کوششوں اور عالمی سطح پر کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے غزہ میں امن کے لیے مداخلت اور سفارتی کوششوں میں مثبت کردار ادا کیا، اور امید ظاہر کی کہ جنگ بندی برقرار رہے گی جس کے نتیجے میں انسانی امداد اور تعمیرِ نو کا عمل ممکن ہوگا۔ اس تناظر میں آرمی چیف نے فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل اور 1967ء سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر القدس کو دارالحکومت قرار دینے کی ضرورت پر پاکستان کے اصولی موقف کو دہرایا۔
افغانستان کے حوالے سے انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ کچھ عناصر افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے بطور پناہ گاہ استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ طالبان حکام ان پراکسی قوتوں کو روکیں تاکہ علاقے میں امن و استحکام کو فروغ ملے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوامی تعاون، خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کی مدد سے اس لعنت کو ختم کیا جائے گا۔
قومی سطح پر معلوماتی ماحول کے چیلنجز پر بھی انہوں نے روشنی ڈالی اور خبردار کیا کہ جدید دور میں آدھے سچ اور جھوٹی اطلاعات تیزی سے پھیلتی ہیں؛ لہٰذا عوام کو "انفارمیشن ڈس آرڈر” کے فریب سے بچنے کی ہدایت دی گئی۔ قائدِ اعظم کے تاریخی اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے خدمت، قربانی، تربیت اور ثابت قدمی کو کامیابی کے بنیادی اجزاء قرار دیا۔
آخر میں آرمی چیف نے نئی افسروں اور جوانوں کو کمیشن ملنے پر مبارکباد پیش کی اور قوم کو یقین دلایا کہ وردی میں ملبوس افراد ہر صورت ملک کی ترقی، سلامتی اور سرحدوں کے دفاع کے لیے مصروفِ عمل رہیں گے۔ انہوں نے ملک کے محافظوں کے جذبے کو سراہتے ہوئے قوم سے اتحاد اور عزم کو برقرار رکھنے کی اپیل کی۔
مختصر نقطۂ نظر
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی یہ تقریر پاک فوج کا روایتی دفاعی بیانیہ، علاقائی تناؤ اور بین الاقوامی تعلقات کے امتزاج پر مبنی ہے۔ چند کلیدی نکات جو قابلِ غور ہیں:
-
حالتِ جنگ بمقابلہ سفارتی دباؤ: آرمی چیف نے عسکری مضبوطی اور دفاعی تیاری کو واضح طور پر اجاگر کیا، مگر ساتھ ہی انہوں نے اختلافات کے حل کے لیے بین الاقوامی اصولوں اور بات چیت کی ضرورت کا عندیہ بھی دیا۔ یہ پیغام دوہرا ہے — طاقت کی زبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ بھی کھلی رکھی گئی ہے۔
-
دفاعی شواہد اور شکوک: بھارتی طرف کی جانب سے شواہد پیش کرنے کے عمل پر تنقید سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی کارروائیوں کو عالمی سطح پر پیش کرنے میں مختلف موقف اپناتے رہیں گے، جس سے شفاف تحقیقات اور ثالثی کے مطالبات مزید زور پکڑ سکتے ہیں۔
-
علاقائی تعلقات کی کثیر جہتی حکمتِ عملی: چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری، سعودی معاہدہ، اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی تجدید—یہ تمام اقدامات پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کی کوشش دکھاتے ہیں، خاص طور پر جب اندرونِ ملک دفاعی موقف بھی مضبوط کیا جا رہا ہو۔
-
اندرونی یکجہتی اور اطلاعاتی جنگ: معلوماتی انتشار کے خلاف خبردار کرنا اور عوامی تعاون پر زور دینا اس بات کی عکاسی ہے کہ جدید محاذ صرف زمینی نہیں بلکہ نفسیاتی اور معلوماتی بھی ہے۔ فوج کی یہ اپیل ملکی استحکام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
-
عسکری اعلانیہ اور خطے پر ممکنہ اثرات: سخت الفاظ اور جارحانہ انتباہ، خاص طور پر نیوکلیئر ماحول کے حوالہ سے، خطے میں کشیدگی کو بڑھانے یا عالمی مبصرین کی طرف سے تشویش کو جنم دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی لیے سفارتی چینلز کی مؤثر فعالیت ضروری ہوگی تاکہ اشتعال انگیزی عالمی سطح پر کشیدگی نہ بڑھائے۔
مجموعی طور پر، آرمی چیف کی تقریر نے قومی حوصلہ اور فوجی تیاری کا تاثر مضبوط کیا ہے جبکہ علاقائی سیاست میں سفارتی و عسکری دوارنِ عمل (dual-track) اپروچ کی اہمیت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ مستقبل میں عملی طور پر امن قائم رکھنے کے لیے شواہد کی شفاف تحقیقات، موثر ثالثی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مربوط حکمتِ عملی ضروری ہوگی تاکہ فوجی معاملات اور سفارتی روابط میں توازن برقرار رہے۔
