عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر جاری اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ حالیہ سیلاب کے تباہ کن اثرات کے باعث ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کی شرحِ نمو حکومت کے مقرر کردہ ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے۔
حکومت نے موجودہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا ہے، تاہم عالمی بینک نے تخمینہ لگایا ہے کہ حقیقی شرحِ نمو صرف 2.6 فیصد تک محدود رہ سکتی ہے۔ ادارے کے مطابق اگلے مالی سال، یعنی 2025-26 میں پاکستان کی معیشت کے 3.6 فیصد کی رفتار سے بڑھنے کا امکان ہے، تاہم اس میں بھی متعدد معاشی خطرات موجود ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حالیہ تباہ کن سیلابوں نے نہ صرف معیشت کی بحالی کی رفتار کو متاثر کیا ہے بلکہ زرعی پیداوار پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔ پنجاب سمیت کئی اہم زرعی علاقوں میں پیداوار 10 فیصد تک کم ہوئی، جب کہ چاول، گنا، کپاس، گندم اور مکئی جیسی اہم فصلیں شدید متاثر ہوئیں۔
عالمی بینک کے مطابق، فصلوں کی تباہی اور خوراک کی فراہمی میں رکاوٹ کے باعث مہنگائی کی شرح 7 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے، جبکہ مالیاتی خسارہ 5.5 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی مجموعی معاشی کارکردگی کا انحصار آئندہ مہینوں میں زرعی شعبے کی بحالی پر ہوگا۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سیلاب کے باعث برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے، تاہم ترسیلات زر اور تیل کی کم عالمی قیمتوں سے تجارتی توازن کو کسی حد تک برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں غربت کی شرح سے متعلق پیشگوئی بھی کی ہے۔ رواں مالی سال میں غربت کی سطح 44 فیصد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جو آئندہ مالی سال 43 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ بینک کے مطابق، اگر حکومت محصولات میں اضافہ کرے، غیرضروری اخراجات میں کمی لائے اور زرعی شعبے کی بحالی پر توجہ دے تو معاشی استحکام ممکن ہے۔
عالمی بینک نے مزید کہا کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے تیار کردہ پانچ سالہ اصلاحاتی منصوبے کے تحت اگر ٹیرف میں کمی اور برآمدات میں تنوع پر کام کیا جائے تو معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بہتر مالی نظم و ضبط، موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی، اور زراعت کے جدید نظام سے معاشی ترقی کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے۔
عالمی بینک کی یہ رپورٹ پاکستان کے لیے ایک اہم انتباہ ہے جو بتاتی ہے کہ سیلاب کے اثرات صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ معاشی طور پر بھی گہرے ہیں۔ زراعت جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اس کی کمزور کارکردگی نے ترقی کے تمام تخمینوں کو چیلنج کر دیا ہے۔
اگرچہ حکومت نے ترقی کے بلند اہداف مقرر کیے ہیں، مگر حقیقی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ محصولات میں شفاف اضافہ، مالی نظم و ضبط، اور زرعی شعبے میں سرمایہ کاری وہ اقدامات ہیں جن سے ملک اس بحران سے نکل سکتا ہے۔
سیلاب کے باعث ہونے والی معاشی سست روی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور بہتر حکمرانی کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر، قدرتی آفات کے اثرات نہ صرف ترقی کے خواب کو متاثر کریں گے بلکہ مہنگائی اور غربت کے مسائل کو بھی مزید گہرا کر دیں گے۔
