Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہ کی گئیں تو امن معاہدے میں شامل ممالک کارروائی کریں گے، ٹرمپ

اگلے 48 گھنٹوں میں پیش رفت پر گہری نظر رکھیں گے، امریکی صدر کا واضح عندیہ
حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہ کی گئیں تو امن معاہدے میں شامل ممالک کارروائی کریں گے، ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ تنازع کے حساس مرحلے میں ایک سخت گیر بیان جاری کیا ہے، جس میں حماس کو یرغمالیوں کی لاشوں کی فوری واپسی کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے یہ شرط پوری نہ کی تو امن معاہدے میں شریک عرب ممالک اور دیگر فریقین سخت اقدامات اٹھائیں گے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب ٹرمپ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے لیے روانہ ہو رہے تھے، جہاں وہ آسیان سمٹ میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس دوران قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک مختصر قیام کے موقع پر امیر قطر سے ملاقات نے بھی علاقائی امن کی کوششوں کو نئی جہت دی ہے۔

یہ بیان نہ صرف غزہ میں جاری سیز فائر کی نزاکت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ٹرمپ کی سفارتی حکمت عملی کی ایک جھلک بھی دکھاتا ہے، جو خطے میں پائیدار امن کی طرف تیزی سے قدم بڑھانے پر مرکوز ہے۔

غزہ میں یرغمالیوں کی واپسی

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، امریکی صدر نے ایک حالیہ بیان میں واضح کیا کہ غزہ میں پھنسے ہوئے یرغمالیوں کی واپسی کے معاملے پر اگلے 48 گھنٹوں میں ہونے والی پیش رفت پر ان کی گہری نظر ہوگی۔ انہوں نے حماس پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر مرحوم یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی کا عمل شروع کرے، جس میں دو امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ عمل نہ صرف انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک ابدی امن کی بنیاد بھی رکھے گا۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ حماس کی طرف سے اس شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں امن معاہدے میں شامل دیگر ممالک، خاص طور پر عرب ریاستوں، کو کارروائی کا حکم دیا جائے گا۔ یہ الٹی میٹم غزہ میں جاری سیز فائر کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کا حصہ ہے، جہاں اب تک زندہ یرغمالیوں کی واپسی تو ہو چکی ہے، مگر 13 مرحوم یرغمالیوں کی لاشیں اب بھی واپس نہیں ہوئیں۔ حماس نے معاہدے کے تحت 28 مرحوم یرغمالیوں کی لاشوں میں سے 15 واپس کی ہیں، جو امریکی بروکرڈ امن کی پہلی کڑی تھی۔

یہ بیان ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران دیا گیا، جہاں ٹرمپ نے حماس کو "بہت بڑا مسئلہ” بننے کی تنبیہ کی، اگر اس نے معاہدے کی پاسداری نہ کی۔ ان کی یہ نگرانی نہ صرف فوری پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے ہے بلکہ علاقائی طاقتوں کو متحرک کرنے کی حکمت عملی کا بھی حصہ ہے۔

دوحہ میں امیر قطر سے ملاقات

دوسری جانب، آسیان سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ملائیشیا جاتے ہوئے امریکی صدر کا طیارہ قطر کے ال عدید ایئر بیس پر ری فیولنگ کے لیے اترا، جہاں انہوں نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی سے ملاقات کی۔ یہ مختصر مگر اہم ملاقات غزہ امن معاہدے پر مرکوز تھی، جہاں قطری رہنماؤں نے یرغمالیوں کی واپسی اور علاقائی استحکام پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

ٹرمپ نے ملاقات کے بعد بتایا کہ ضرورت پڑنے کی صورت میں قطر غزہ میں امن فورس بھیجنے کو تیار ہے، جو سیز فائر کی نگرانی اور انسانی امداد کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ پیشکش نہ صرف قطر کی سفارتی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ امریکی قیادت کی زیر نگرانی ایک وسیع تر امن فریم ورک کی طرف بھی اشارہ ہے۔ قطر، جو حماس کے ساتھ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، اس پیشکش سے مشرق وسطیٰ میں استحکام کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

یہ ملاقات ٹرمپ کی ایشیا ٹور کا حصہ تھی، جہاں وہ نہ صرف علاقائی تنازعات کو حل کرنے پر توجہ دے رہے ہیں بلکہ چین کے بڑھتے اثر کو روکنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

علاقائی امن کی کوششیں

غزہ میں جاری سیز فائر معاہدہ، جو امریکی ثالثی میں طے پایا، اب یرغمالیوں کی واپسی پر منحصر ہے۔ تمام زندہ یرغمالی واپس ہو چکے ہیں، مگر مرحوموں کی لاشوں کی واپسی میں تاخیر نے تناؤ کو جنم دیا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس جان بوجھ کر انہیں روک رہا ہے، جو معاہدے کی روح کے خلاف ہے۔ ٹرمپ کا یہ بیان اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور امریکی وزیر خارجہ مارکو ربیو کی حالیہ دوروں کی روشنی میں سامنے آیا ہے، جہاں یرغمالی خاندانوں سے ملاقاتوں میں وعدہ کیا گیا کہ تمام قیدی واپس آئیں گے۔

عرب ممالک، جن میں قطر، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں، اس معاہدے کے شرکاء ہیں اور ان کی کارروائی کا مطلب سفارتی دباؤ سے لے کر اقتصادی پابندیوں تک ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کی یہ حکمت عملی نوبل امن انعام کی دوڑ میں بھی ان کی پوزیشن کو مضبوط بناتی ہے، جہاں انہیں آٹھ جنگیں روکنے کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ بیان وائرل ہو گیا ہے، جہاں اسرائیلی شہریوں نے ٹیلی Aviv میں احتجاجی مظاہرے کیے، جبکہ فلسطینی حلقوں میں اسے دباؤ کی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان غزہ سیز فائر کی نزاکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، جو انسانی ہمدردی اور سفارتی دباؤ کی آمیزش ہے۔ 48 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن حماس پر فوری عمل کا مطالبہ کرتی ہے، جبکہ عرب ممالک کی کارروائی کی دھمکی علاقائی طاقتوں کو متحرک کرنے کی ایک ذہین چال ہے، جو امریکہ کی براہ راست مداخلت کے بغیر امن کو یقینی بنانے کی کوشش ہے۔ قطر کی امن فورس کی پیشکش ایک مثبت قدم ہے، جو انسانی امداد اور نگرانی کو سہارا دے سکتی ہے، مگر اس کی کامیابی حماس کی تعاون پر منحصر ہے۔

یہ بیان ٹرمپ کی سفارتی شبیہ کو مضبوط کرتا ہے، جو آٹھ جنگیں روکنے کے دعوے سے جڑا ہوا ہے، مگر یہ بھی خبردار کرتا ہے کہ معاہدے کی ناکامی سے علاقائی تناؤ دوبارہ بھڑک سکتا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ امن کی طرف ایک امید افزا اشارہ ہے، مگر عملی اقدامات اور بین الاقوامی ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیتا ہے، تاکہ یرغمالیوں کی واپسی محض ایک شرط نہ رہے بلکہ پائیدار استحکام کی بنیاد بنے۔

آپ کی رائے میں حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے؟ کمنٹ میں ضرور بتائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں