ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں جاری آسیان سمٹ کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسا بیان دیا جس نے جنوبی ایشیا کی سیاسی راہنمائی کو نئی جہت دی۔ انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات پر اپنی مداخلت کی صلاحیت کا اعادہ کیا، مگر واضح کیا کہ فی الحال اس معاملے میں فوری مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیان نہ صرف ان کی سفارتی خود اعتمادی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ان کی حالیہ سفارتی کامیابیوں کی روشنی میں بھی دیکھا جا رہا ہے، جہاں انہوں نے آٹھ جنگیں روکنے کا دعویٰ کیا ہے۔
آسیان سمٹ میں ٹرمپ کا خطاب
کوالالمپور میں منعقدہ 47ویں آسیان سمٹ کے دوران ٹرمپ نے مختلف عالمی مسائل پر بات کی، جن میں جنوبی ایشیا کے تنازعات بھی شامل تھے۔ سمٹ کے سائیڈ لائنز پر تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان امن معاہدے کی دستخطی تقریب میں شریک ہوتے ہوئے انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے صورتحال کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے حال ہی میں سنا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان پھر سے مسائل ابھر رہے ہیں، اور وہ اس کیس کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ وہ دونوں ملکوں کی گہری سمجھ رکھتے ہیں، اور انہیں یقین ہے کہ پاک افغان تنازع کو جلد اور موثر طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب خطے میں سرحدی جھڑپوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں نے حال ہی میں شدت اختیار کر لی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں کو متاثر کر رہی ہیں۔
آٹھ جنگیں روکنے کا دعویٰ
امریکی صدر نے اپنی سفارتی دستاویزات کو مزید رنگین بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گزشتہ آٹھ ماہ میں ان کی قیادت میں آٹھ مختلف جنگیں روک دی گئی ہیں، جو ان کے پیش روؤں کے لیے ناممکن سمجھی جاتی تھیں۔ انہوں نے تھائی لینڈ-کمبوڈیا معاہدے کو اپنی حالیہ کامیابیوں کی ایک اور مثال قرار دیا، جس میں سرحدی تنازع کا خاتمہ اور 18 کمبوڈین قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ اب صرف ایک آخری تنازع باقی ہے، اور وہ اسے بھی جلد حل کر دیں گے۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاک افغان معاملہ ان کی سفارتی ایجنڈے کی فہرست میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے، جہاں وہ اپنی "جنگیں روکنے” والی صلاحیت کو ایک اور امتحان کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ کوششیں نہ صرف علاقائی استحکام کو فروغ دیں گی بلکہ عالمی امن کی طرف بھی ایک اہم قدم ثابت ہوں گی۔
پاکستانی قیادت کی تعریف
ٹرمپ نے پاکستان کی قیادت کی کھل کر تعریف کی، جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا خاص طور پر ذکر کیا۔ انہوں نے دونوں کو "بہترین لوگ” قرار دیا اور کہا کہ ان پر مکمل اعتماد ہے۔ یہ تعریف ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں دوبارہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، جو قطر اور ترکی کی ثالثی میں دوحہ معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کا یہ اعتماد نہ صرف دونوں رہنماؤں کی ذاتی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکی قیادت پاکستانی فریق کو تنازع حل کرنے میں کلیدی شراکت دار سمجھتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاک افغان مسئلے کا پائیدار حل ممکن ہے، مگر ابھی فوری مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں، جو موجودہ سفارتی عمل کو جاری رکھنے کی حمایت کا پیغام ہے۔
سمٹ کا پس منظر
آسیان سمٹ، جو ملائیشیا کی صدارت میں منعقد ہو رہا ہے، نے علاقائی تنازعات کے حل پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ٹرمپ کی موجودگی میں تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان معاہدہ دستخط ہونے سے نہ صرف جنوب مشرقی ایشیا میں استحکام آیا بلکہ یہ بھی پیغام دیا کہ بڑی طاقتیں چھوٹے تنازعات کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اسی تناظر میں ٹرمپ کا پاک افغان بیان ایک وسیع تر سفارتی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے، جو ان کی نوبل امن انعام کی دوڑ میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ پاکستان سمیت کئی ممالک ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر یہ بیان تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، جہاں لوگ ٹرمپ کی "جنگیں روکنے” والی صلاحیت پر تبصرے کر رہے ہیں۔ کچھ اسے ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ دیگر اسے سفارتی دباؤ کی حکمت عملی سمجھ رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان پاک افغان تنازع کے حل کی امید کو زندہ کرتا ہے، مگر یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ان کی سفارتی حکمت عملی کا انحصار ذاتی اعتماد اور بڑے دعوؤں پر ہے۔ آٹھ جنگیں روکنے کا دعویٰ، جو غزہ، تھائی لینڈ-کمبوڈیا اور دیگر تنازعات کو شامل کرتا ہے، ٹرمپ کی خود کو "امن ساز” کے طور پر پیش کرنے کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جو ان کی سیاسی شبیہ کو مضبوط بنانے میں مددگار ہے۔ پاکستانی قیادت کی تعریف نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان امریکی ثالثی کی راہ ہموار کرتی ہے بلکہ یہ بھی اشارہ دیتی ہے کہ واشنگٹن خطے میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنا چاہتا ہے۔
تاہم، "فی الحال کچھ نہیں کر رہا” والا بیان ایک حکمت عملی سے بھرا ہوا ہے، جو استنبول اور دوحہ جیسے مذاکرات کو جاری رکھنے کی حمایت کرتا ہے، مگر اگر ناکامی ہوئی تو امریکی مداخلت کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ یہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے مسائل کو خود حل کریں، ورنہ بیرونی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ مجموعی طور پر، ٹرمپ کی یہ گفتگو علاقائی امن کی طرف ایک مثبت اشارہ ہے، مگر اس کی کامیابی کا انحصار عملی اقدامات پر ہوگا، نہ کہ محض بیان بازی پر۔
