Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

مودی سے کہا کہ جنگ کی تو امریکا تجارتی تعلقات ختم کر دے گا؛ڈونلڈ ٹرمپ

پاکستان سے جنگ کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں،مودی پر واضح کر دیا
مودی سے کہا کہ جنگ کی تو امریکا تجارتی تعلقات ختم کر دے گا؛ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو نہایت واضح اور صاف الفاظ میں باور کرایا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کا راستہ اختیار کرنا دانشمندی نہیں، بلکہ دونوں ممالک کو بات چیت اور تجارت کے ذریعے تنازعات حل کرنے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں عسکری مداخلت کے بجائے معاشی دباؤ اور سفارتی روابط کو اہمیت حاصل ہے، اور یہی حکمت عملی وہ جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی اپنائے ہوئے ہیں۔

اوول آفس میں اہم گفتگو

یہ بیان انہوں نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں دیوالی کی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران دیا۔ صدر ٹرمپ نے بتایا کہ ان کی وزیراعظم مودی سے ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جس میں دوطرفہ تجارت، علاقائی صورتحال اور عالمی سیاست پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسی تناظر میں انہوں نے مودی پر واضح کر دیا کہ پاکستان سے جنگ کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں، اور اگر حالات کشیدگی کی جانب بڑھتے ہیں تو اس کے سنگین اقتصادی اور سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

تجارت کے ذریعے امن کی وکالت

صدر ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں اس امر پر زور دیا کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں تنازعات کو جنگ کے بجائے تجارت اور سفارتی ذرائع سے حل کرنے کے قائل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مدتِ صدارت کے دوران آٹھ ممکنہ جنگوں کو صرف اس بنیاد پر روک دیا کہ جنگی رویہ اپنانے والے ممالک کو امریکا کی طرف سے تجارتی تعلقات ختم کیے جانے کا انتباہ دیا گیا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان آٹھ ممکنہ جنگوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بھی شامل تھی، جسے ان کی براہ راست مداخلت اور دباؤ کے نتیجے میں ٹالا گیا۔

پاک بھارت کشیدگی کے پس منظر میں امریکی کردار

امریکی صدر نے انکشاف کیا کہ پاک بھارت تناؤ کے دوران، جب دونوں ممالک کی فضائی افواج آمنے سامنے آ چکی تھیں اور سات جنگی طیارے مار گرائے گئے تھے، تو انہوں نے فوری طور پر اسلام آباد اور نئی دہلی کی قیادت سے رابطہ کیا اور دوٹوک انداز میں آگاہ کیا کہ اگر جنگ چھیڑی گئی تو امریکا نہ صرف تجارتی روابط منقطع کر دے گا بلکہ عالمی سطح پر سخت اقدامات اٹھائے گا۔

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا یہ پیغام مؤثر ثابت ہوا اور صرف 24 گھنٹوں کے اندر دونوں ممالک نے اپنے اپنے موقف میں نرمی لاتے ہوئے جنگ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی، جس سے خطے میں ممکنہ تباہی کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا۔

ٹرمپ کی ماضی کی پالیسی اور موجودہ بیانیہ میں تسلسل

یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات میں مصالحانہ کردار ادا کرنے کا دعویٰ کیا ہو۔ ماضی میں بھی وہ متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے جنوبی ایشیا میں ممکنہ جنگ کو روک کر عالمی امن کو سہارا دیا۔ ان کے مطابق ایک بڑی عالمی طاقت ہونے کے ناتے امریکا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے ممالک کے درمیان پُل کا کردار ادا کرے جن کے تعلقات تاریخ، جغرافیہ اور سیاست کے الجھاؤ میں الجھے ہوئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ حالیہ گفتگو نہ صرف ایک سفارتی پیغام ہے بلکہ اس میں عالمی طاقتوں کی نئی پالیسی جھلکتی ہے کہ عسکری محاذ آرائی کی جگہ معاشی دباؤ اور سفارتی مداخلت کو ترجیح دی جائے۔ ان کا یہ بیان دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے لیے ایک اہم یاددہانی ہے کہ موجودہ دور میں جنگ نہ صرف تباہی لاتی ہے بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی ملکوں کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

ٹرمپ کا تجارتی دباؤ کا حربہ وقتی طور پر تو کارگر رہا، لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف وقتی دباؤ یا بیانات سے نہیں بلکہ مسلسل سفارتی محنت، اعتماد سازی، اور بنیادی تنازعات کے حل سے ہی ممکن ہے۔

اس بیان سے یہ تاثر ضرور ابھرتا ہے کہ امریکا آنے والے وقت میں بھی جنوبی ایشیائی معاملات میں اہم کردار ادا کرتا رہے گا — بشرطیکہ اس کی مداخلت غیر جانبدارانہ، اصولی اور مثبت ہو۔

جنگ کی راہ ترک کر کے مذاکرات، تجارت اور سفارتی روابط کو فروغ دینا ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے پاکستان، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کو ایک پرامن مستقبل دے سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں