لاہور:قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے جنوبی افریقا کے خلاف فتح کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے لیے نیک شگون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیم نے بھرپور عزم اور متحدہ حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے۔
لاہور کے تاریخی قذافی اسٹیڈیم میں جنوبی افریقا کو 93 رنز سے شکست دینے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شان مسعود نے کہا کہ ’’یہ جیت ہمارے لیے ایک نئی شروعات ہے۔ ٹیم نے جس جذبے کے ساتھ مقابلہ کیا، اس سے مستقبل کے لیے اعتماد بڑھا ہے۔‘‘
کپتان نے واضح کیا کہ پچھلے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ سائیکل میں پاکستان کو کئی مواقع پر غلطیوں کے باعث نقصان اٹھانا پڑا، مگر اب ٹیم اس تسلسل کو توڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ ان کے مطابق، اس بار کوچنگ اسٹاف، بولرز اور بیٹنگ یونٹ سب ایک مشترکہ مقصد کے تحت کھیل رہے ہیں — ’’ہم نے اپنی کمزوریوں پر کھل کر بات کی ہے اور اب ان پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
شان مسعود نے مزید کہا کہ پچ بیٹنگ کے لحاظ سے مشکل تھی، خاص طور پر نئے بلے باز کے لیے کریز پر سیٹ ہونا آسان نہیں تھا۔ ’’دونوں اننگز میں ہماری آخری وکٹیں جلدی گریں، یہ وہ پہلو ہے جس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کے میچز میں ان غلطیوں سے بچا جاسکے۔‘‘
قومی کپتان نے امام الحق کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’امام نے زبردست کم بیک کیا اور خود پر اعتماد ظاہر کیا۔‘‘ انہوں نے بابر اعظم کی بیٹنگ کو بھی ٹیم کے لیے ’’حوصلہ افزا عنصر‘‘ قرار دیا، جبکہ عبداللہ شفیق کے بارے میں کہا کہ ’’اس نے دوسری اننگز میں دباؤ کے باوجود پختگی کا مظاہرہ کیا۔‘‘
شان مسعود نے بولنگ یونٹ کے فیصلوں پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق، ’’شاہین شاہ آفریدی کو نیا گیند نہ دینا ایک مشکل مگر حکمتِ عملی پر مبنی فیصلہ تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ شاہین ایک ورلڈ کلاس بولر ہیں اور وہ خود اس فیصلے کے حق میں تھے۔ ’’انہوں نے کہا تھا کہ وہ میچ کا رخ بدل دیں گے — اور انہوں نے واقعی وہ کر دکھایا۔‘‘
کپتان نے حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی کو ریورس سوئنگ کے لیے ٹیم کے سب سے مؤثر ہتھیار قرار دیا۔ ان کے بقول، ’’ان دونوں کے درمیان گیند کے ساتھ زبردست ہم آہنگی ہے، جو میچ کے اہم لمحات میں فرق پیدا کرتی ہے۔‘‘
شان مسعود نے کہا کہ ٹیم کا اگلا چیلنج مختلف کنڈیشنز میں کھیلنا ہے، اور راولپنڈی کے دوسرے ٹیسٹ کے لیے پچ دیکھ کر ہی ٹیم کمبی نیشن کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستانی ٹیم کی یہ فتح نہ صرف ٹیسٹ چیمپئن شپ کے آغاز پر حوصلہ افزا ثابت ہوئی ہے بلکہ اس نے ٹیم کے حوصلوں کو بھی نیا عزم دیا ہے۔ شان مسعود کی قیادت میں ٹیم ایک متوازن سمت اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
امام الحق، بابر اعظم، اور عبداللہ شفیق کی کارکردگی نے بیٹنگ لائن میں اعتماد بحال کیا، جبکہ بولرز — خاص طور پر شاہین اور حسن — نے ثابت کیا کہ پاکستانی بولنگ کسی بھی وکٹ پر خطرناک ہوسکتی ہے۔
اگر یہ تسلسل برقرار رہا تو پاکستان نہ صرف ٹیسٹ چیمپئن شپ میں مضبوط پوزیشن حاصل کرسکتا ہے بلکہ عالمی کرکٹ میں اپنی ساکھ کو بھی ایک بار پھر بلندی پر لے جا سکتا ہے۔
