Our website use cookies to improve and personalize your experience and to display advertisements(if any). Our website may also include cookies from third parties like Google Adsense, Google Analytics, Youtube. By using the website, you consent to the use of cookies. We have updated our Privacy Policy. Please click on the button to check our Privacy Policy.

لاہور آلودگی کی لپیٹ میں بچوں اور بزرگوں کے لیے صورتحال انتہائی خطرناک

لاہور کا سب سے آلودہ علاقہ ملتان روڈ ہے، جہاں اے کیو آئی 500 کی انتہائی سطح نوٹ کی گئی
Lahore's pollution situation is extremely dangerous for children and the elderly

لاہور، جو ایک وقتوں میں باغوں اور مہکتی ہواؤں کا شہر کہلاتا تھا، اب زہریلی سموگ کی گھٹائیں اس کی سانسوں کو دبا رہی ہیں۔ پنجاب کا دارالحکومت شدید فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہے، جہاں ائیر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکا ہے۔ محکمہ ماحولیات پنجاب کی تازہ ترین رپورٹس اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ شہر کے مختلف علاقوں میں آلودگی کی شدت نے عوام کی صحت کو شدید خطرات میں ڈال دیا ہے، اور یہ صورتحال نہ صرف لاہور بلکہ پورے صوبے کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔

یہ سموگ کا موسم ہر سال کی طرح واپس لوٹ آیا ہے، مگر اس بار کی شدت پچھلے ریکارڈز کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ شہریوں کی روزمرہ زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں، ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ زہریلی ہوائیں طویل مدتی صحت کے مسائل کو جنم دیں گی۔

محکمہ ماحولیات کی رپورٹ

محکمہ ماحولیات پنجاب کی آفیشل ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار ایک الارمنگ تصویر پیش کرتے ہیں۔ لاہور کا مجموعی اے کیو آئی 358 تک پہنچ گیا ہے، جو "انتہائی خطرناک” زمرے میں آتا ہے اور اس سطح پر باہر نکلنا صحت کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار شہر کی مختلف نگرانی اسٹیشنز سے اکٹھے کیے گئے ہیں، جو PM2.5، PM10 اور دیگر زہریلے ذرات کی مقدار کو ماپتے ہیں۔

صوبے کے دیگر شہروں کی صورتحال بھی خوش کن نہیں۔ گوجرانوالہ میں اے کیو آئی 500 کی انتہائی سطح رکارڈ کی گئی، جو بالکل حدِ محفوظ سے باہر ہے اور فوری صحت کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سرگودھا کا انڈیکس 347 پر پہنچا، جو سانس لینے والے نظام پر براہ راست حملہ ہے۔ فیصل آباد 306، ملتان 304، اور ڈیرہ غازی خان 244 پر ہے، جو پورے پنجاب کو ایک زہریلے بادل کی طرح گھیر رہا ہے۔

 ملتان روڈ سب سے متاثر

شہر کے اندر کی صورتحال تو اور بھی گمبھیر ہے۔ محکمہ کی ویب سائٹ کے مطابق، لاہور کا سب سے آلودہ علاقہ ملتان روڈ ہے، جہاں اے کیو آئی 500 کی انتہائی سطح نوٹ کی گئی۔ یہاں ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ، صنعتی اخراجات، اور گھریلو دھوئیں کی آمیش نے ہوا کو زہر آلود بنا دیا ہے۔ جی ٹی روڈ پر بھی 500 کا انڈیکس رکارڈ ہوا، جو مسافروں اور مقامی رہائشیوں کے لیے ایک خاموش قاتل کی طرح ہے۔

شاہدرہ میں 391، سفاری پارک کے قریب 377، کاہنہ میں 335، اور پنجاب یونیورسٹی ایریا میں بھی 335 کی سطح دیکھی گئی۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف شہر کی مرکزی شاہراہوں کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آلودگی کی لہر ہر طرف پھیل چکی ہے، چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں یا تفریحی جگہیں۔ فوٹو فائلز میں دھندلا سا منظر اور ماسک پہنے لوگ اس بحران کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔

عوام کی پریشانیاں

لاہور کی گلیوں میں اب دھوئیں کی چادر چھا گئی ہے، جہاں ماں باپ اپنے بچوں کو باہر نکلنے سے روکتے ہیں، اور بزرگ اپنے کمروں میں بند ہو کر وقت گزار رہے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک کی رونق اب زہریلی ہو گئی ہے، اور ہر سانس کے ساتھ زہریلے ذرات جسم میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں سانس کی تکلیف، الرجی، اور دل کی بیماریوں کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو اس بحران کی انسانی قیمت کو اجاگر کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آلودگی صرف لاہور تک محدود نہیں، بلکہ بھارتی سرحد سے آنے والے دھوئیں اور مقامی ذرائع اسے مزید شدید بنا رہے ہیں۔ شہریوں کی آوازیں سوشل میڈیا پر گونج رہی ہیں، جہاں لوگ فوری اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ فضائی آلودگی کا بحران لاہور اور پنجاب کے لیے ایک واضح انتباہ ہے کہ شہری ترقی کی دوڑ میں ماحولیاتی توازن کو نظر انداز کرنا اب مہنگا پڑ رہا ہے۔ اے کیو آئی کی یہ اعلیٰ سطحیں نہ صرف فوری صحت کے خطرات بڑھاتی ہیں بلکہ طویل مدتی اثرات جیسے پھیپھڑوں کی بیماریاں اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہیں۔ محکمہ ماحولیات کے اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صنعتی اخراجات، ٹریفک، اور کراس بارڈر سموگ مشترکہ ذمہ داری ہے، جسے حل کرنے کے لیے پاکستان اور ہمسایہ ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

حکومت کی طرف سے سموگ الرٹس اور پابندیوں کا اعلان ایک اچھا آغاز ہے، مگر اسے پائیدار پالیسیوں جیسے الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ، درختوں کی شجرکاری، اور صنعتی فلٹرز کی لازمی تنصیب سے جوڑنا ضروری ہے۔ عوام کی شمولیت بھی کلیدی ہے، جہاں چھوٹے عادات جیسے ماسک کا استعمال اور گھریلو دھوئیں میں کمی مجموعی تبدیلی لا سکتی ہے۔ یہ بحران ایک موقع بھی ہے کہ پنجاب ماحولیاتی استحکام کی طرف قدم بڑھائے، ورنہ لاہور کی خوبصورتی زہر کی بھٹی میں جلتی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں