اسلام آباد: پاکستان کی سپریم کورٹ نے 24 اکتوبر 2025 کو ایک تاریخی اور نظیر ساز فیصلہ سنایا ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ نے ماورائے عدالت حراستی قتل (Encounter Killing) کو "فساد فی الارض” (زمین میں فساد پھیلانا) قرار دیا ہے۔
یہ فیصلہ بلوچستان کے ضلع تربت میں 2020 میں پیش آنے والے ایک لرزہ خیز واقعے پر مبنی ہے، جہاں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار شاد یُ اللہ نے ایک یونیورسٹی طالبعلم، حیات اللہ کو حراست میں لینے کے بعد والدین کے سامنے آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
کیس کا پس منظر
واقعہ 2020 میں اس وقت پیش آیا جب تربت میں ہونے والے ایک دھماکے کے بعد ایف سی اہلکاروں نے طالبعلم حیات اللہ کو دہشت گردی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
گرفتاری کے بعد اہلکار شاد یُ اللہ نے حیات اللہ کو اس کے والدین اور بہن کی آنکھوں کے سامنے آٹھ گولیاں مار کر موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ والدین کی چیخ و پکار کے باوجود فائرنگ نہ رکی۔
مقتول کے والد عبدالرحمن نے ایف آئی آر درج کرائی، جس پر لوئر کورٹ نے مجرم کو سزائے موت سنائی۔
ملزم نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، جو مسترد کر دی گئی۔ بعدازاں سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، جہاں جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ کی سماعت
سماعت کے دوران مجرم نے مؤقف اختیار کیا کہ "دھماکے میں اپنے ساتھیوں کے زخمی ہونے پر غصے میں آیا”، تاہم عدالت نے اس جواز کو غیرقابل قبول قرار دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے:
“یہ بزدلانہ، بہیمانہ اور انسانیت سوز عمل ہے۔ ایسا جرم نہ صرف فرد بلکہ ریاست کے وقار پر بھی حملہ ہے۔”
عدالت نے ملزم کی اپیل خارج کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھی اور قرار دیا کہ ماورائے عدالت قتل کرنے والا شخص محض قاتل نہیں بلکہ "فساد فی الارض” کا مرتکب ہے۔
فیصلے کی نمایاں نکات
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کئی اہم اصول وضع کیے:
-
ماورائے عدالت قتل = فساد فی الارض:
عدالت نے کہا کہ کسی بھی شہری کو حراست میں لے کر بغیر عدالتی ٹرائل کے قتل کرنا آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 (زندگی اور آزادی کا حق) اور آرٹیکل 14 (انسانی وقار کا تحفظ) کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ایسا عمل قرآنِ پاک کی سورۃ المائدہ کی آیت 33 کے تحت "فساد فی الارض” کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سزا موت یا عمر قید ہو سکتی ہے۔ -
اداروں کی تربیت اور انسانی حقوق:
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، خصوصاً ایف سی، پولیس اور دیگر فورسز کی تربیت میں انسانی حقوق، قانونی دائرہ کار اور شہری آزادیوں کو لازمی جزو بنایا جائے۔ -
کسی نرمی کی گنجائش نہیں:
عدالت نے واضح کیا کہ ریاستی ادارے عوام کے محافظ ہیں، ان کے قاتل نہیں۔ ایسے مجرمان کے لیے کسی رعایت یا ہمدردی کی کوئی گنجائش نہیں۔
فیصلے پر عوامی اور میڈیا ردعمل
فیصلہ سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خصوصاً X (ٹوئٹر) پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
صحافی احسن وحید اور انسانی حقوق کے کارکن مہیش بلوچ نے اس فیصلے کو “بلوچستان کے حقوق اور انصاف کی جیت” قرار دیا۔
متعدد صارفین نے لکھا کہ یہ فیصلہ کراچی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل کے متاثرین کے لیے امید کی کرن ہے۔
دوسری جانب بعض مبصرین نے سوال اٹھایا کہ “کیا یہ فیصلہ محض قانونی نظیر بن کر رہ جائے گا یا اس پر حقیقی عملدرآمد بھی ہوگا؟”
قانونی و سماجی پہلو
| پہلو | تفصیل |
|---|---|
| قانونی اثرات | یہ فیصلہ پاکستان پینل کوڈ (سیکشن 302) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ (سیکشن 7) کے تحت “فساد فی الارض” کی تشریح کو مضبوط بناتا ہے۔ اب ماورائے عدالت قتل پر سخت سزائیں دی جا سکیں گی۔ |
| سماجی اثرات | انسانی حقوق کی تنظیموں، خصوصاً HRCP نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ توقع ظاہر کی گئی کہ یہ فیصلہ اداروں کی جوابدہی بڑھانے میں مدد دے گا۔ |
| چیلنجز | ماضی میں ایسے کئی فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹیں آئیں، خصوصاً جہاں ملزمان ریاستی اداروں سے تعلق رکھتے تھے۔ |
مجرم کی سزائے موت برقرار
سپریم کورٹ نے مجرم شاد یُ اللہ کی سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کر دی۔
عدالت نے قرار دیا کہ ایسے مجرمین کو سزا دینا ریاست اور عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
ایک تاریخی نظیر
یہ فیصلہ بلاشبہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔
ماضی میں ماورائے عدالت قتل کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے، مگر شاذ و نادر ہی کسی مجرم کو فساد فی الارض کے زمرے میں سزا ملی۔
سپریم کورٹ کا یہ اقدام واضح پیغام دیتا ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال کی ایک حد ہے — اور وہ حد انسانی زندگی اور وقار ہے۔
یہ فیصلہ اگر مستقل عدالتی و انتظامی پالیسی کی صورت اختیار کر لے تو یہ نہ صرف بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں انصاف کے احساس کو مضبوط کرے گا بلکہ پاکستان کے قانونی نظام میں انسانی وقار کی بحالی کی نئی بنیاد رکھے گا۔
